قبائلی اضلاع میں نفسیاتی بحران، زخم صرف جسم میں نہیں روح میں بھی ہیں

سعید وزیر

قبائلی اضلاع کی مٹی صرف بارود کی بو سے نہیں، بلکہ ایک ایسے درد سے بھی بوجھل ہے جو نہ صرف جسموں بلکہ روحوں کو بھی زخمی کر چکا ہے۔

ہر گلی، ہر در و دیوار، ہر چہرہ ایک ایسی داستان سناتا ہے جس میں صرف صدمہ، خوف اور جدائی کا کرب ہے۔یہاں زندگی ایک مستقل ذہنی دباؤ کے سائے میں بسر ہو رہی ہے۔

جہاں دیگر معاشروں میں بچے خواب دیکھتے ہیں، وہاں قبائلی علاقوں کے بچے خوف کے ساتھ آنکھ کھولتے ہیں۔ جہاں خواتین گھروں کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں، وہاں کی عورتیں خود ٹوٹ چکی ہیں۔ جہاں نوجوان امید کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں، وہاں بے یقینی ان کی نگاہوں سے جھلکتی ہے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد زبیر، جو گزشتہ آٹھ برسوں سے وزیرستان جیسے خطوں میں ذہنی صحت کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ صرف انفرادی یا وقتی صدمہ نہیں رہا، بلکہ ایک قومی نفسیاتی سانحہ بن چکا ہے۔

ان کے بقول، ان کے پاس آنے والا ہر دوسرا مریض PTSD، Panic Attacks اور شدید ذہنی دباؤ جیسے امراض کا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں، “جنگ کا سب سے بڑا میدان انسانی ذہن ہے۔”قبائلی اضلاع میں دکھ اور صدمات صرف اس نسل تک محدود نہیں رہے۔

ماہرین نفسیات خبردار کر رہے ہیں کہ یہ درد نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ بچوں نے اگرچہ بمباری یا ہلاکتوں کے مناظر نہیں دیکھے، لیکن وہ اپنے والدین کے اندر چھپے خوف، غصے اور صدمے کو جذب کر چکے ہیں۔

سائنسی طور پر اسے “ٹرانس جنریشنل ٹراما” کہا جاتا ہے، جو بچوں کی ذہنی نشوونما، تعلیمی کارکردگی اور رویوں کو شدید متاثر کر رہا ہے۔

تحصیل سروکئی، جنوبی وزیرستان میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق وہاں کے نوجوانوں میں ذہنی دباؤ، بے چینی اور نفسیاتی پیچیدگیاں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ علاقائی بدامنی، جبری گمشدگیاں، اور مسلسل خوف کا ماحول ان مسائل کو ہوا دے رہا ہے۔ یہ نوجوان نہ صرف نفسیاتی طور پر متاثر ہو رہے ہیں، بلکہ ان کی معاشرتی شمولیت، خوداعتمادی اور تعلیمی کارکردگی بھی زوال کا شکار ہو رہی ہے۔

ورلڈ بینک کی 2023–24 کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں حاملہ خواتین کی 58 فیصد اور غیر حاملہ خواتین کی 28 فیصد میں ڈپریشن کی علامات پائی گئیں، جبکہ 21 فیصد خواتین Generalized Anxiety Disorder (GAD) کا شکار تھیں۔ یہ اعداد و شمار محض طبی ڈیٹا نہیں بلکہ ایک معاشرتی الارم ہے کہ خواتین، جو گھریلو اور معاشرتی نظام کا ستون سمجھی جاتی ہیں، خود ذہنی طور پر بکھر چکی ہیں۔

زبیر کہتے ہیں کہ اگر کوئی تحقیق ہو، تو میڈیکل اسٹورز ہی کافی ہیں۔ جہاں غریب لوگ، جنہیں شاید دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، مہنگی ذہنی ادویات خرید رہے ہیں۔ وہ ادویات جنہیں وہ مکمل کورس میں لینے کی سکت نہیں رکھتے، مگر تکلیف ایسی ہے کہ آدھی دوا پر بھی صبر کر لیتے ہیں۔ کیونکہ یہاں زخم صرف جسم میں نہیں، ذہن میں ہیں۔

افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان قبائلی اضلاع میں ذہنی امراض سے متعلق کوئی مستند یا جامع ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ نہ سرکاری سطح پر مکمل سروے ہوئے، نہ پالیسی بنی، اور نہ ہی بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں۔ حکومت اور متعلقہ ادارے صرف بیانات تک محدود رہے، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کی اکثریت نفسیاتی مریض بن چکی ہے، یا اس دہانے پر کھڑی ہے۔

ماہر نفسیات زبیر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسپتال، ادویات، اور وقتی میڈیکل کیمپس صرف عارضی سہارا ہیں۔ اصل علاج صرف ایک ہے: امن۔ وہ امن جو ٹوٹے اعتماد کو بحال کرے، جو بچوں کے چہروں پر دوبارہ مسکراہٹ لائے، جو ماؤں کے دل سے وہ مسلسل لرزتا ہوا سوال مٹا دے: “کیا میرا بیٹا کل زندہ لوٹے گا؟”جب تک اس خطے میں امن اور معاشرتی استحکام بحال نہیں ہوتا، تب تک یہ خاموش چیخیں سنائی دیتی رہیں گی۔ PTSD یہاں ایک بیماری نہیں، ایک وبا ہے۔ ایسی وبا جو جسم میں نہیں، روح میں سرایت کرتی ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ خاموش بم ایک ایک کر کے پھٹتے رہیں گے ،کبھی کسی خودکشی کی صورت میں، کبھی کسی ویران آنکھ میں، اور کبھی کسی خاموش چیخ میں۔

یہ وقت ہے کہ ریاست، پالیسی ساز ادارے اور سماجی تنظیمیں اس خاموش تباہی کو سنجیدگی سے لیں۔ صرف فائرنگ کے رکنے سے امن نہیں آتا، بلکہ ذہنی سکون، سماجی تحفظ، اور ایک محفوظ کل کی ضمانت ہی اصل امن ہے۔ کیونکہ یہ زمین صرف خون سے نہیں، خوف سے بھی بھیگ چکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں