ضم اضلاع کے درجنوں ترقیاتی منصوبے نظرانداز

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ضم شدہ قبائلی اضلاع کو اس سال بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں نظرانداز کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

پختون ڈیجیٹل پر شائع خبر کے مطابق رواں مالی سال 2025-26ء کی پہلی سہ ماہی اختتام کے قریب ہے، لیکن اب تک دو درجن سے زیادہ محکموں میں ترقیاتی منصوبوں پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ متعدد شعبوں کو تاحال ابتدائی ریلیز بھی نہیں ملی، جس کے باعث خدشہ ہے کہ اس سال بھی قبائلی اضلاع کے بیشتر منصوبے کاغذوں تک محدود رہیں گے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تحصیل اے ڈی پی کے لیے ایک پائی بھی جاری نہیں کی گئی۔ مائن اینڈ منرل، لائیو اسٹاک اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے رکھے گئے فنڈز بھی ابھی تک نہیں مل سکے۔ اسی طرح ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے تحت مختلف اضلاع میں پولیس اسٹیشنز کے قیام کے لیے 2 کروڑ 60 لاکھ روپے مختص ہیں، لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بلڈنگز کے شعبے میں 12 کروڑ 40 لاکھ روپے رکھے گئے مگر ریلیز نہ ہوسکے۔ ہائر ایجوکیشن کے لیے ایک ارب 50 کروڑ روپے مختص تھے جن میں سے 27 کروڑ 69 لاکھ روپے جاری کیے جا چکے ہیں، لیکن 15 ستمبر تک اس مد میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔

اسی طرح انصاف روزگار اسکیم کے لیے 8 کروڑ 10 لاکھ روپے مختص کیے گئے جن میں سے ایک کروڑ 62 لاکھ ریلیز ہو چکے، لیکن اخراجات صفر ہیں۔ لوکل گورنمنٹ کو دیے گئے ایک ارب 21 کروڑ میں سے 22 لاکھ ریلیز ہوئے، تاہم خرچ ایک روپے بھی نہیں ہوا۔

ریکارڈ کے مطابق 15 ستمبر 2025ء تک فنانس، آئی ٹی، لائیو اسٹاک ریسرچ، یوتھ افیئرز، سائنس و ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹ، اقلیتی امور، ہاؤسنگ اور جیل خانہ جات کے لیے مختص فنڈز موجود ہونے کے باوجود خرچ نہ ہو سکے۔ ان میں سے کئی محکموں کو محکمہ خزانہ کی جانب سے انیشل ریلیز بھی دی جا چکی ہے۔

اس بارے میں محکمہ خزانہ کا مؤقف ہے کہ قبائلی اضلاع کے لیے فنڈز بروقت فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاٹا کے لیے این ایف سی ایوارڈ کے تحت 42 ارب 74 کروڑ روپے کا شیئر بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ہے، تاہم اس کے ملنے کے امکانات اس سال بھی معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ محکمہ خزانہ کے مطابق صوبائی حکومت ایسے منصوبوں کو ترجیح دے رہی ہے جو فوری نوعیت کے ہیں تاکہ قبائلی اضلاع کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں