افغان نوجوان جو پاکستان میں باکسنگ کے ذریعے اپنے خواب پورے کرنا چاہتے ہیں

شبانہ احمدی
کھیل ہمیشہ سے نوجوانوں کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ بہت سے نوجوانوں کے لیے کھیل صرف ایک مشغلہ نہیں بلکہ مستقبل بنانے اور دوسروں کے لیے مثال قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ افغانستان میں جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد ہزاروں نوجوان اپنے خاندانوں سمیت پاکستان ہجرت پر مجبور ہوئے، ان میں کئی پوشیدہ صلاحیتوں کے مالک بھی شامل تھے۔ انہی میں سے ایک ہیں ساحل احمد بھی ہیں جنہوں نے مشکلات کے باوجود باکسنگ کے میدان میں قدم رکھا اور کامیابی حاصل کی۔

ساحل احمد بچپن سے ہی باکسنگ کے شوقین تھے۔ لیکن افغانستان میں مناسب سہولیات اور محفوظ ماحول نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے شوق کو کبھی عملی شکل نہ دے سکے۔ پاکستان ہجرت کے بعد ان کے لیے حالات کچھ بہتر ہوئے۔ انہوں نے ایک مقامی جم میں شمولیت اختیار کی اور باقاعدہ تربیت شروع کی۔

ابتدائی دن ان کے لیے آسان نہ تھے۔ مالی مسائل اور مہاجرت کے قانونی مسائل ان کے راستے میں بڑی رکاوٹ تھے۔ لیکن مضبوط ارادے اور حوصلے کے ساتھ انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ ساحل کہتے ہیں:

“جب بھی باکسنگ کے دستانے پہنتا ہوں، محسوس کرتا ہوں جیسے زندگی مجھے نیا حوصلہ دے رہی ہے۔”

کچھ ہی ماہ کی محنت کے بعد ساحل احمد نے اپنی پہلی باکسنگ فائٹ میں حصہ لیا۔ تماشائیوں اور ٹرینرز کے لیے یہ حیران کن تھا کہ ایک نوآموز کھلاڑی اتنی جلدی مقابلے کے لیے تیار ہوا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ساحل نے نہ صرف حصہ لیا بلکہ فتح بھی حاصل کی۔

یہ کامیابی صرف ذاتی نہیں تھی۔ ساحل کے مطابق یہ جیت تمام افغان مہاجر نوجوانوں کے لیے امید اور استقامت کا پیغام ہے۔ اس کامیابی نے ان کے اعتماد کو مزید بڑھایا اور اب وہ بڑے مقابلوں کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔

کامیابی کے باوجود ساحل احمد کا کہنا ہے کہ مہاجر کھلاڑیوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے، خصوصاً ویزہ اور اقامت کے مسائل۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی حکومت افغان کھلاڑیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے تاکہ وہ آزادی سے ٹریننگ اور مقابلوں میں حصہ لے سکیں۔

“اگر ویزہ اور دستاویزات کا مسئلہ حل ہو جائے تو بہت سے افغان نوجوان اپنے ٹیلنٹ کو سامنے لا سکتے ہیں۔ یہ صرف افغانستان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی فخر کا باعث ہوگا۔”

ساحل احمد کے مطابق کھیل مہاجرین کی زندگی میں ذہنی سکون اور سماجی ہم آہنگی کا ذریعہ بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین اکثر دباؤ اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن کھیل انہیں نئی امید دیتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ، مہاجر کھلاڑیوں کی کامیابیاں میزبان معاشرے میں افغانوں کی مثبت شبیہ اجاگر کرتی ہیں۔ ساحل کا کہنا ہے کہ افغان نوجوان بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں، بس انہیں مناسب پلیٹ فارم اور سہولیات کی ضرورت ہے۔

آج ساحل احمد صرف ایک کھلاڑی نہیں بلکہ ایک مثال بن چکے ہیں۔ ان کی کہانی یہ پیغام دیتی ہے کہ مشکلات چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں، حوصلے اور محنت سے کامیابی ممکن ہے۔ ان کا خواب ہے کہ ایک دن وہ بین الاقوامی مقابلوں میں افغانستان کا نام روشن کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب بھی میں جیتتا ہوں، اپنی کامیابی افغانستان کے عوام کے نام کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے جیسے ساری قوم میرے ساتھ خوشی منا رہی ہے۔
ساحل احمد کی کہانی محض ایک کھیلوں کی رپورٹ نہیں بلکہ ہزاروں افغان نوجوانوں کی زندگی کی عکاسی ہے جو ہجرت کے باوجود اپنے خوابوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر ارادہ پختہ ہو تو کوئی رکاوٹ انسان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں