نائن الیون سے لے کر اب تک دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ کی عکاسی دو طرح سے ہوئی ہے، ایک وہ لوگ کر رہے ہیں جو براہ راست ساری چیزوں کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرا وہ طبقہ جو دوسرے علاقوں میں بھی جھلکیاں دیکھ کر پورے میچ کا حال بتا رہے ہیں۔ دونوں متضاد کمنٹیٹروں کی سوچ اور اپروچ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ براہ راست بتانے والوں نے خود دیکھا اور سہا ہوتا ہے اس لیے جو کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہے، اس میں عموماً ایسی خبر بھی شامل ہوتی ہیں جن کو دور سے دیکھنے والے چھپا دیتے ہیں اور یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ریاستی پالیسیوں کی متضاد چیزیں، کیونکہ جو لوگ شکار ہوتے ہیں جن کے بچے اسی ماحول میں جی رہے ہوتے ہیں وہ شاید اس طرح سے نہ سوچ پائیں جس طرح اسلام آباد میں بیٹھنے والا سوچ سکتا ہے۔ اسی طرح دور بیٹھ کر بتانے والے کی معلومات جھلکیوں کی طرح آدھی ادھوری ہوتی ہیں مگر ان کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ان کو اپنے اداروں کی ضروریات کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ بھی کئی لائنیں کھینچی گئی ہیں جن کا ذکر شاید یہاں نہ کر سکوں مگر تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے خود دیکھا ہے کہ بے گناہ لوگ شکار بنے لیکن مین سٹریم میڈیا پر کچھ اور بتایا گیا۔
متاثرہ علاقوں سے بات کرنے والوں کے لیے مشکلات تین گنا زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ یہاں آپ آسانی کے ساتھ کسی بھی فریق کی پہنچ میں ہوسکتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات کا آغاز ہوا اور جس طرح کے دعوے کیے گئے اس کے بعد یہاں کے لوگوں میں ایک امید جاگ اٹھی تھی کہ تکلیف کے بعد پرامن علاقہ اور محفوظ زندگی نصیب ہوگی، کیونکہ لوگوں نے پانچ چھ سال بدترین دہشتگردی کا سامنا کیا تھا۔ حالانکہ دوران آپریشن دہشت گردی سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا گیا مگر پھر بھی لوگ سمجھتے رہے کہ یہ وقتی چیزیں گزر جائیں گی۔
آپریشن راہ نجات 2009 میں شروع ہوا اور 2016/17 میں قریباً پچاس فیصد علاقوں میں لوگوں کی واپسی ہوئی مگر اب بھی پندرہ سے بیس فیصد ایسے علاقے ہیں جن کو سرکاری سطح پر کلئیر قرار نہیں دیا گیا۔
اس کے بعد آپریشن ضرب عضب پندرہ جون 2014 کو (شمالی وزیرستان) شروع ہوا جو کہ 2017 تک جاری رہا۔ اس دوران ملکی سطح پر امن و امان میں بہتری آئی۔
لیکن آپریشن ہوئے کامیابی کے اعلانات کیے گئے مگر کامیاب ضرب عضب کے بعد جب لوگوں کی واپسی ہوئی تو شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ شمالی وزیرستان کے لوگوں کے مطابق ٹارگٹ کلنگ سے مرنے والے لوگوں کی مبینہ تعداد 400 سے 450 تک ہے۔
ان حالات کی وجہ سے جو حکومت کا سب سے بڑا نقصان ہوا وہ یہ کہ اس وقت فاٹا بالخصوص وزیرستان میں عام لوگوں کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش بھی نظر نہیں آئی۔ خود راقم کو اعلیٰ افسران نے بتایا تھا کہ ہم ایک پروگرام پر کام کریں گے جس کا مقصد ہو گا لوگوں کے دل و دماغ جیتنا۔ لیکن بدقسمتی سے اس دوران کوئی ایسا واقع سامنے آجاتا ہے کہ غلط فہمیوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
2018 کے بعد اچانک حالات خراب ہونا شروع ہوئے تھے اور یہاں موجود کوئی بھی شخص آپ کو یہی بتائے گا کہ یہ سب کچھ کسی کے فیض سے ہوا ورنہ اچانک ایسا ممکن نہیں تھا۔
اب موجودہ حالات یہ ہیں کہ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ تین ماہ میں خیبرپختونخوا میں پولیس پر ہونے والے حملوں میں 125 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ 212 زخمی ہوئے۔
یہاں خیبرپختونخوا میں حالات کی خرابی کا اندازہ پشاور پولیس پر ہونے والے حملے کے بعد پولیس فورس کے جوانوں کے احتجاج سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس ملک کے فیصلہ ساز طبقے کو (چاہے وہ حکومت میں ہے یا اپوزیشن میں) کرسی کی پڑی ہے۔ جب یہاں کے حالات دیکھتا ہوں اور فیصلہ سازوں کی خواب غفلت تو عجیب سے وسوسے گھیر لیتے ہیں جس کو بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ البتہ اپنا ایک مشورہ دے کر بات ختم کررہا ہوں کہ اب ہمیں کاروبار کے لیے کوئی اور ذرائع ڈھونڈنے پڑیں گے کیونکہ آنے والے دنوں میں خون سے چلنے والی مارکیٹ بند ہونے کو ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر موزوں اور مارکیٹ کی ضروریات سے باہر کاروبار چلاتے چلاتے دیوالیہ ہی نہ ہو جائیں اور دکان بھی کھونی پڑے۔
نوٹ یہ یہ کالم پہلے وی نیوز پر شائع ہوچکاہے.