وہ ایک افسر نہیں تھے قوم کے سچے خادم تھے

وہاب وزیر

اسسٹنٹ کمشنر میرانشاہ شاہ ولی خان شہید وہ شخص تھا جو آدھی رات کو بھی عوام کا فون اٹھا لیتا تھا۔ وزیرستان میں کرفیو کے باعث جب کوئی مریض ہسپتال تک نہ پہنچ سکتا تھا، کسی کے گھر اچانک ایمرجنسی ہو جاتی، کسی بچے کی سانس رک جاتی یا کسی ماں کی حالت بگڑ جاتی تو وہ آدھی رات کوکال سنتے ہی فوراً اس مریض کی انٹری یعنی اجازت دلوانے کی کوشش کرتا۔ ضرورت پڑتی تو ایمبولینس کا بندوبست کرواتا تاکہ ایک جان تاخیر کے بغیر بچ سکے۔

وہ وہی شخص تھا جو روزانہ کے کرفیو میں بھی لوگوں کے لیے راستے کی اجازت لیتا اور ہر مشکل میں عوام کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ وہ جنگ سے متاثرہ خاندانوں، بالخصوص معصوم شہیدوں کے ورثا کے لیے معاوضوں کی کوشش کرتا۔ ڈرون حملوں، مارٹر فائر اور تباہ شدہ گھروں کے دکھ میں سب سے پہلے شریک ہوتا۔ وہ عوام کے ہر دکھ، ہر مسئلے اور ہر ضرورت میں سب سے آگے ہوتا۔

شاہ ولی وہ شخص تھا جو اپنی جان کی پروا کئے بغیر صحت کے مراکز کا جائزہ لیتا، تاکہ وزیرستان کے لوگوں کو صحیح علاج مل سکے۔ وہ اسکولوں کا دورہ کرتا، حاضری چیک کرتا اور اس بات کو یقینی بناتا کہ یہاں کے بچوں کو بھی وہی سہولتیں ملیں جو بڑے شہروں کے بچوں کو ملتی ہیں۔

وہی افسر دن رات محنت کرکے تبلیغی اجتماع کے انتظامات کو کامیاب بناتا تاکہ ایک بڑا دینی اجتماع بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل ہو سکے۔ وہ وہی تھا جو عوام کے دکھ سن کر خود کو ان کا ذمہ دار سمجھتا تھا۔

اور پھر… اسے ہم سے ، یعنی وزیرستان سے چھین لیا گیا۔ راستے میں نشانہ بنایا گیا۔ ایک ایسے انسان کوشہیدکردیا گیا جو صرف خدمت جانتا تھا۔

تو کیا ہلمند کے والد کا قتل جائز تھا؟ ایک ایسے شخص کا خون جس کا ہر لمحہ وزیرستان کے لیے وقف تھا؟ کس جرم کی سزا دی گئی؟

شاہ ولی خان کا قتل کسی بیانیے سے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ نہ آج، نہ کبھی۔

وہ ایک افسر نہیں، وزیرستان کا درد، وزیرستان کی خدمت، اور وزیرستان کا فخر تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں