(ارشاد محسود)
دوران انضمام سبز باغ دیکھا کر اپریشن زدہ اور پچھلے بیس سالوں سے پاکستان کی بقاء کا جنگ لڑنے والے قبائلیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا، افغان وار میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے پاکستان کی قبائلی پٹی میں جب آپریشنوں کا سلسلہ کچھ روکا اور دوبارہ آباد کاری کا مرحلہ شروع ہوگیا عین اسی وقت بے گھر اور اپنے علاقوں سے کوسوں دور متاثرین کی زندگی گزارنے والے قبائلیوں پر ایک اور معاشی بدحالی انضمام کی صورت مسلط کردی گئی.
قبائلی نوجوان کو وکیل دلیل کا جھانسہ دے کر اسے ایک ایسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جیسے وہ حاصل کرنے کے بجائے اپنے سینکڑوں سالہ آبا واجداد کے روایات، معدنیات اور انہیں ملنے والے مراعات کھو بیٹھے، فاٹا انضمام کے بعد قبائلیوں کو کچھ دینے کے بجائے الٹا انہیں پہلے سے ملنے والے مراعات چھین بھی لئے گئے، گنے چنے اداروں اور محکمہ جات جن کو قبائلی پٹی تک انضمام کے بعد توسیع دی گئی پانچ سالوں میں وہ قبائلی عوام کے لئے کچھ نہ کرسکیں، الٹا قبائلی پٹی کے عوام کے وہ مراعات اور سہولیات جو انہیں پچھلے 70 سالوں سے مںیسرتھے کو انضمام لے ڈوبی اور انہیں ان قبائلیوں سے چھین لیا گیا.
دوران انضمام قبائلیوں کے لئے جن وعدے وعید اور فنڈز کے اعلانات کئے گئے تھے تاکہ انہیں مین سٹریم پر لانے اور انہیں دیگر بندوبستی علاقوں کے برابر لائی جائے، وہ محض کھوکھلے اور سیاسی نعرے ثابت ہوئے، اب جتنے بھی محکموں کو بندوبستی علاقوں سے فاٹا تک توسیع دی گئی ہے کے کارکردگی صفر ہے، نئے آنے والے محکمہ جات کا قبائلی علاقوں میں کام کرنا تو دور کی بات ہے یہاں تک کہ پچھلے پانچ سالوں میں کسی ایک ادارے کی بھی دفتر کی تعمیر تک نہ کرسکیں.
یہاں پر صرف جنوبی وزیرستان کے قبائلیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں.
1: عدالت
ہاں وکیل و دلیل کا حق تو مل گیا مگر جنوبی وزیرستان عدلیہ ابھی تک اپنی بلڈنگ سے محرم ہے، پچھلے پانچ سالوں سے نہ تو عدالتی نظام چلانے کے لئے کوئی کمپلیکس بن سکا نہ کوئی چیمبرز اور ہی ججز اور سٹاف کے لئے کوئی رہائشی بنگلہ و کوارٹرز البتہ ٹانک میں واقع پولیٹیکل کمپاونڈ میں فاٹا دور میں بنے ہوئے ایک عمارت کو رنگ و روغن دیکر اس پر لکھائی کرکے ترازو بنادی گئی اس میں عارضی کام چلا رہے ہیں، مگر کب تک،
2: پولیس نظام
کسی بھی نظام کو چلانے کے لئے نظام کے رکھوالے اور اس نظام کو لاگو کرنے کےلئے ایک منظم ادارے کی ضرورت اولین ترجیح ہوتی ہے، اسی طرح جمہوری نظام میں پولیس فورس کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے.
یوں اگر پورے قبائلی پٹی میں پولیس نظام کو دیکھا جائیں ہونا تو ایسا ہی چاہئے تھا کہ باقاعدہ طور انضمام کے فوراً بعد پورے فاٹا میں فوری طور پر پولیس بھرتی کرائی جاتی اور انہیں دیگر بندوبستی علاقوں کی پولیس کی طرح باقاعدہ ٹرین کرواتے جس سے ایک تو علاقائی نوجوانان منفی سرگرمیوں کی جانب راغب ہونے کے بجائے برسر روزگار ہو جاتیں دوسرا نئے نظام کو چلانے کے لئے تعلیم یافتہ اور ویل ٹریننگ شدہ پولیس اہلکاروں پر مشتمل فورس ملتی، مگر یہاں تو سب الٹا ہی چلایا گیا.
سابق فاٹا میں پہلے سے موجود خاصہ دار اور لیویز فورس کو پولیس میں ضم کروادیا جس کی وجہ سے قبائلی عوام کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ان کی منہ سے تیار نوالہ چھین لیا گیا کیونکہ خاصہ دار فورس قبائلی عوام کی مورثی نوکریاں تھیں دادا کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد نوکری والد کو اور والد کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بیٹے کو وارثت میں خود بخود مل جاتی تھی مگر قبائلی عوام کو انضمام کی آڑ میں اس نعمت سے محروم کردیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے.
اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے ایک تو قبائلی عوام کو بے پناہ نقصان کا سامنا کرناپڑا، ان کی موروثی نوکریاں جو آبا و اجداد سے چلے آرہے تھے ختم کردی گئی جس کا ازالہ شاہد قبائلی عوام کے آنے والا پانچواں نسل بھی پورا نہ کرسکے تو دوسری جانب بے قاعدگیوں کی وجہ سے پچھلے پانچ سالوں سے نظام مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے.
کیونکہ خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرتے وقت کوئی تعلیم، عمر وغیرہ نہیں دیکھی گئی بس جو بھی آتا خاندان میں جس کے حصے نوکری آتی انہیں پولیس کی بیج لگوا کر بھرتی کیا گیا، جس کی وجہ سے سابقہ فاٹا میں نظام مکمل طور درھم برھم ہوگیا، اب قبائلی پٹی میں نہ تو ایف سی آر رہا اور نہ ہی آئین پاکستان (جمہوری نظام)، ریاستی اداروں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ نظام کو چلانے کے لئے کھبی اے ڈی آر نظام کی تجویز پیش کرتے ہیں، کھبی واپس ایف سی آر کی طرف جانے کی باتیں ہو رہی ہے.
جنوبی وزیرستان کی حد تک نظام کو چلانے کے لئےبات اگر کی جائےتو پچھلے پانچ سالوں یہاں جو بھی آفیسر تعینات کیا گیا اس نے نظام کو چلانے کےلئے صرف سوچنا تک گوارہ نہیں سمجھا اپنے تعیناتی کے دوران ہر کوئی اپنا دور گزارنے سمیت کچھ کمانے کے بارے سوچ رہا ہے، یوں قبائلی عوام انضمام سے جو آس لگائے بیٹھے تھے کہ انضمام کے بعد نوجوان نسل کو روزگار کے مواقع فراہم ہونگےکی امیدوں پر پانی پھیر دیاگیا.
روزگار
فاٹا دور میں سرکاری سکولوں پر پہلے تین کلاس فور نوکریاں اور ایک رہائشی کوارٹر ہوا کرتا تھا، جس میں سکول پر تعینات اساتذہ رہائش پذیر ہواکرتے تھے اب انضمام کے بعد تین نوکریوں کے بجائے ایک کلاس فور نوکری کردی گئی اور سکولوں میں اساتذہ کی رہائشی کوارٹرز ختم کرادی گئی جس کے باعث دور دراز علاقوں کی تعینات سٹاف کی رہائشی بندوبست نہ ہونے کے باعث سکولز ویران ہوتے جارہے ہیں.
صرف یہ ہی نہیں جنوبی وزیرستان میں پہلے چار سو کے قریب کھلی تعینات تھے جو بارش، سیلاب یا لینڈ سلائیڈنگ کے بعد شاہراؤں کو صاف کراکے آمدروفت کی بحالی کے کام کرتے تھے یہ نوکریاں بھی موروثی نوکریاں ہوا کرتی تھی یعنی خاندان میں ایک کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد دوسرے کو خود بخود مل جاتی تھی اب ان میں سے بعض کی نوکریاں ختم کردی گئی ہے اور چند ایک اہلکاروں کی نوکریاں رہ گئی ہے جو پینشن ہونے کے بعد خودبخود ختم ہو جائیگی، جس کی بدولت جنوبی وزیرستان کے چار سو کے قریب نوجوان برسر روزگار ہو جاتے مزید اس پراجیکٹ کو انضمام کے بعد ختم کردیا گیا ہے.
اسی طرح فاٹا میں پہلے رائج ٹیکس سسٹم جن میں ایجنسی ڈیولپمنٹ فنڈز (اے ڈی ایف) ہوا کرتا تھا جس پر انتظامیہ روزمرہ کے معاملات سمیت ہر ایجنسی میں ترقیاتی کام اور باقاعدہ ایک منظم سسٹم چلایا کرتے تھے یہ اربوں کے حساب سے ٹیکس وصولی کی جاتی تھی اور دوبارہ ایجنسی میں ترقیاتی کاموں اور دیگر معملات پر لگائی جاتی تھی کو ختم کردیا گیا اب بھی وہی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے کہی پر پولیس اہلکار تو کہی پر کوئی اور کسٹم وغیرہ، مگر اب ماہانہ یہ اربوں روپے کہاں جاتے ہیں کسی کو معلوم نہیں،
انفراسٹرکچر
بات اگر کی جائیں انفراسٹرکچر کی،مزے کی بات تو یہ ہے کہ آج تک پورے جنوبی وزیرستان میں پولیس فورس کے رہائشی عمارتیں، پولیس لائنز، تھانہ جات، چوکیاں کچھ بھی تعمیر نہیں کئے گئے، شروع میں پولیس نے ٹانک پولیٹیکل کمپاونڈ جنوبی وزیرستان میں واقع لوکل گورنمنٹ کے ایک پرانی بوسیدہ عمارت پر قبضہ کرلیا، اور وزیرستان میں تحصیل بلڈنگز میں زبردستی بیٹھ کر ان عمارتوں سے تھانے بنانے کی کوشش کی گئی اور اکثر علاقوں میں ہسپتالوں پر قبضہ کرکے وہاں پر چوکی انچارج تعینات کروائے گئے، ہر آنے والا آفیسر یوں ہی قبضے کرتے رہے اپنا دور گزارتے رہے، کسی نے بھی مستقل حل کے بارے نہیں سوچا جسکی وجہ پولیس اہلکار کھبی ایک جگہ بسترے لے کر چند آیام گزارنے کے پھر سے کسی دوسری جگہ شفٹ ہو جاتے ہیں مستقل ٹھکانہ اور نظام نہ ہونے کی وجہ نوجوانوں کا مورال اور جذبے روزبروز ختم ہوتے جارہے ہیں۔
اسی تناظر میں نوتعینات ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جنوبی وزیرستان نے پچھلے دنوں پولیس فورس کو ساتھ لے کر جنوبی وزیرستان کے علاقہ سراروغہ میں ایک فنکشنل ہسپتال پر دھاوا بھول کر زبردستی قبضہ کرکے وہاں پر موجود ہیلتھ سٹاف کو دھکے دیکر ہسپتال سے باہر نکالا اور ہسپتال میں زبردستی پولیس لائن قائم کردی، ہیلتھ سٹاف، علاقائی عوام، آل پیرامیڈیکس ایسوسی ایشن کے سخت ردعمل پر معاملہ صوبائی سطح تک پہنچ گئی مگر پولیس نے ہسپتال کا قبضہ نہ چھوڑنے کی ٹھان لی اور آج تک زبردستی ہسپتال میں پولیس لائن قائم ہے۔۔
دیگر محکمہ جات اگر بات کی جائیں تو پچھلے پانچ سالوں سے برائے نام وجود رکھتی ہے بعض کا تو وزیرستان میں بالخصوص اور دیگر قبائل اضلاع میں بالعموم وجود تک نہ بنا سکیں، جنوبی وزیرستان دو اضلاع اور تین سب ڈویژن پر مشتمل ہے جس کی کل آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق نو لاکھ سے زائد بتائی گئی ہے، یہاں ہر سب ڈویژن پر ایک تحصیل میونسپل آفیسر کی تعیناتی تو ہوچکی ہے، مگر انکے لئے علاقے میں دفاتر اور دیگر انفراسٹرکچر پر اب تک توجہ تک نہیں دی گئی، ہر سب ڈویژن پر تحصیل میونسپل آفیسر کی تقرری کے ساتھ ساتھ چند ایک اہلکاروں کی تعیناتی کی جاچکی ہے اور کچھ گاڑیاں بھی دی گئی ہے،جن میں سب ڈویژن لدھا میں ٹوٹل سٹاف 13 اہلکار 2 گاڑیاں اور چار عدد یو ایس ایڈ کی جانب سے زرنج رکشے، سب ڈویژن وانا ٹوٹل سٹاف 26 اہلکار 2 گاڑیاں اور 2عدد یو ایس ایڈ کی جانب سے زرنج رکشے ، جبکہ سب ڈویژن سرویکئی کےلئے ٹوٹل سٹاف 14 اہلکار 2 گاڑیاں دے دی گئی ہیں مگر نہ تو سٹاف کے لئے کوئی باقاعدہ طور پر دفتر بنایاگیاہے اور نہ ہی گاڑیاں چلانے کے لئے تیل وغیرہ مہیا کی گئی ہے.
ٹی ایم ایز جنوبی وزیرستان پچھلے پانچ سالوں سے ٹانک میں ایک دو کمروں پر مشتمل کوارٹر میں بیٹھے ہیں جو کہ انضمام سے پہلے فاٹا دور میں کلرکل سٹاف کے لئے فیملی کوارٹر کے طور پر بنائے گئے تھے، یعنی پچھلے پانچ سالوں میں قبائلی ضم شدہ اضلاع میں ایسا کوئی ترقیاتی منصوبہ نہ تعمیر ہوسکا جس سے اس خطے کے لوگوں کو انضمام کے ثمرات ملنے اثرات تک نظر آنے لگے ہوں، بلکہ الٹا ہی انہیں مزید دیوار سے لگایا جا رہا ہے،
اب فاٹا میں نہ تو ایف سی آر اور نہ کوئی دوسرا قانوں باقاعدہ طور فعال نظر آرہا ہے اور قبائلی علاقوں کے باسی ایک ایسے دلدل میں پھنس چکے ہیں جن سے نکلنے کےلئے ان کے پاس کوئی آپشن نہیں بچھا۔ جہاں پر جس بھی آفیسر کو فائدہ نظر آئے وہاں وہی قانون نافذ العمل ہوجاتاہے، کہی پر کمزور پولیس نظام جو برائے نام قانونی طریقوں کو پورا کرنے صرف کاغذی کاروائیوں تک محدود ہے وہی پر دوسری جانب جہاں پر انتظامیہ کو فائدہ نظر آئے وہاں پر وہی پرانی روایات کو لاگو کراکے جرگے کرائے جاتے ہیں، المختصر کہ قبائلی عوام شدید زہنی تناؤ کے شکار ہے، آج تک انہیں یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ اپنے آہنی حقوق کس نظام کے تحت مانگے.
رہی بات انہیں دیگر بندوبستی علاقوں کے طرز پر لانے کے لئے این ایف سی ایوارڈ جس پر پچھلے دنوں جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل کمپاونڈ میں نگران منسٹر عامر عبداللہ نے محسود قبائل کے عمائدین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر تو پہلے ہی صوبے متفق نہ ہوسکیں جس کے بدلے میں مرکز نے فاٹا کے لئے سو ارب روپے کا اعلان کیا تھا کہ ہر سال ہم فاٹا کو دس ارب روپے دینگے اور یہ سلسلہ دس سالوں تک جاری رہیگا، اب اسی پر جب ہم مرکز سے بات کرتے ہیں تو وہ مختلف ترقیاتی منصوبوں اور بجلی کی مد میں ہمیں حساب دیکھا کر کہتے ہیں یہ پیسے ہم نے پورے کرکے دی ہے، مگر ہم یہ مقدمہ لڑتے رہیںگے اور فاٹا کو انکے حقوق دلائینگے.
حالیہ مردم شماری میں فاٹا کے چھ قومی اسمبلی کے سیٹیں ختم کردی گئی اور سینیٹ سے انضمام کے بعد فاٹا کی نمائندگی کا مکمل طور پر صفایا کردیا گیا.
تعلیمی میدان میں اگر دیکھا جائے تو فاٹا کے پاکستان کے مختلف یونیورسٹیوں میں میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں سکالرشپ پر ملنے والے سیٹوں کے کوٹے کو بھی ختم کردیا.
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ فاٹا میں آج تک اگر کسی بھی ضلع میں پولیس لائن، دیگر محکمہ جات کے دفاتر نہ بن سکیں تو یہ خطیر رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوئے، اگر اس خطیر رقم میں ترقیاتی کام نہ ہوسکے اور فاٹا تک توسیع کرنے والے ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر تک نہ بن سکے ہوا میں ہی ختم ہوگئے شاہد دیہائیوں بعد بھی یہ انفراسٹرکچر تعمیر ہو، ڈر ہے کہ قبائلی اضلاع کے عوام کو ایک بار پھر تاریکی کے نہ ختم ہونے والی دور کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہیں.