(اسلام گل آفریدی)
پشاور کے رادیش سنگھ ٹونی پہلا اقلیتی شحص ہے جنہوں نے سال 2018کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا کی صوبائی نشست پی کے 75پر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم اُن کو بہت کم ووٹ ملے جبکہ اس سے پہلے وہ مئی 2015کو مقامی حکومتوں کے انتخابات میں سخت مقابلے کے بعد جنرل کونسلر منتخب ہوئے تھے۔
اُنہوں نے بتایاکہ انتخابات کے ذریعے عوامی نمائندہ منتحب ہونے کے بغیر اقلیتی برادری کو درپیش مسائل کا حل ممکن ہی نہیں کیونکہ ہمیشہ یہی دکھاگیا ہے کہ صوبائی یا مرکز میں اکثریتی جماعت مخصوص نشستوں پر اقلیتی ممبران تو منتحب کرلیتے ہیں لیکن وہ اپنے لوگوں کے فلاح بہبود کے بجائے زیادہ کام پارٹی کے ایجنڈے کے تکمیل کے لئے کرتے ہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ انتخابات میں اُن کو آزاد حیثیت سے حصہ لینااُن کے کافی مشکل کا سبب بن گیا اور مخالف اُمیدواروں اورباثرافراد کے جانب سے اُن کو دستبر دار ہونے کے لئے دھمکیاں دئیے گئے لیکن اس کے باوجود بھی وہ خاموش نہیں رہا تاکہ باقی اقلیتی برادری کے لوگوں کو مستقبل میں حوصلہ مل سکے۔
قومی اسمبلی کے 336نشستوں میں دس جبکہ سینٹ کے 96نشستوں میں سے چار جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 145نشستوں میں سے چار اقلیتی برادری کو مختص کردیئے گئے ہیں۔ماسوائے سندھ کے بعض علاقوں جہاں پر ہندووں آبادی زیادہ ہے قومی، صوبائی اور سینٹ کے نشستوں پر مذکورہ آبادی کے نمائندے جنرل نشستوں پر منتخب ہوتے ہیں۔
چھٹی مردم شماری میں ملک کی کل آبادی 21،کروڑ 32لاکھ، 22ہزار بتائی گئی تھی جن میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کی شرح میں مجموعی طور پر 0.21 فیصد کمی ظاہر کی گئی تھی۔رپورٹ کے مطابق 2017 میں مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی جس میں مسیحی 2.64 ملین یا 1.27 فیصد، ہندو 3.6 ملین یا 1.73 فیصد، احمدی 0.19 ملین یا 0.09 فیصد، شیڈیولڈ کاسٹ 0.85 ملین یا 0.41 فیصد اور دیگر مذاہب بشمول سکھ، پارسی، بہائی، کیلاش برادری سے تعلق رکھنے والے افراد 0.04 ملین یا 0.02 فیصد تھے۔
ساتویں مردم شماری کے ابتدائی اعداد شمار جوکہ رواں سال مئی میں جاری کی گئی اُن میں ملک کی آبادی 24کروڑ تک پہنچ چکی ہے تاہم خواتین، خواجہ سراء اور اقلیتی برادری کے حوالے سے تاحال اعدادو شمار جاری نہیں کئے گئے.
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سکھ رہنماء اور سماجی کارکن بابا جی گوپال سنگھ کاکہنا ہے کہ اکثریتی آبادی کے نسبت اقلیتی برادر ی کو بنیادی سہولت کی کمی ہے اور اُن کے حل کے لئے بھی عوامی نمائندے سنجیدہ کوششیں نہیں کرتے۔اُن کے بقول چھ سو تک سکھ خاندان پشاور کے گنجان آباد علاقے ڈبگری گارڈ ن میں رہائش پذیر ہیں جہاں پر نکاس اب، پینے کے صاف پانی، سٹریٹ لائٹ اور گیس کے کمی جیسے بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے جبکہ ان کے حل کے لئے ہر دفعہ انتخابات میں اُمیدوار ان کے حل کے وعدے کرتے ہیں لیکن منتحب ہونے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں۔
اُنہوں نے بتایاکہ جن علاقوں میں اقلیتی برادری کی آبادی زیادہ ہے وہاں پر اُن کو اپنے بندے کو جنرل نشست پر ووٹ دینا چاہیے۔
الیکشن کمیشن کے جانب سے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا تاریخ آٹھ فروری 2024 کااعلان کردیا گیا ہے تاہم خیبر پختونخوامیں خواتین اور محنت کش بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم کرسچن ڈوپلمنٹ آرگنائزیشن کی سربراہ صائمہ امتیاز کاکہنا ہے کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے چند افراد ہر دفعہ مقامی حکومتوں، صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں جنرل نشستوں پرانتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اُن میں یہ اہلیت بھی ہوتی ہے کہ وہ علاقے کے عوام کی صیحح طریقے سے نمائندگی بھی کرسکے لیکن ہر دفعہ اُن کو اس دوڑ سے الگ کردیا جاتاہے۔
اُنہوں نے کہاکہ اقلیتی دل برادشت ہوکر اب ان کی کوئی زیاد دلچسپی ہی انتخابات میں نہیں رہی ہے کیونکہ اقلیت برادری کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ اُن کا بھی آزاد اور بااختیار منتخب نمائندہ موجود ہوں تاکہ وہ لوگوں کو درپیش مسائل حل کرسکے لیکن پیسوں اور دباؤکی بنیاد پر ہر دفعہ اقلیتی برادری ووٹ کے ذریعے اپنے پسند کے اُمید وار کے انتخاب سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پشاور کے چالیس سالہ پردیب کمار ایک سیاسی جماعت کا رکن ہے۔ اُن کا تعلق پشاور کے ایسے علاقے سے ہے جہاں پر مختلف اقلیتی برادری کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں اور اُن کے مسائل بھی باقی لوگوں سے بڑھ کرہیں۔ اُن کے بقول وہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونا چاہتے تھے تاکہ نہ صرف اپنے لوگوں کے محرمیاں دور کرسکے بلکہ مسلم آبادی جہاں پر پہلے بنیاد ی سہولیات کے دستیابی کے لئے کام نہیں ہوا وہاں پر کام کرسکے لیکن اپنے سیاسی جماعت کےطرف سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے کافی مایوسی ہوئی۔ جماعت کے اس فیصلے کے باجود بھی پردیب نے اپنے سیاسی وفاداری تبدیل نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق صوبائی ترجمان اور پارٹی کے مرکزی کونسل کے ممبر سیدولی شاہ آفریدی نے کہا اُن کے سیاسی جماعت اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہور ی عمل میں اقلیتی برادری کی شرکت انتہائی اہم ہے۔
اُن کے بقول صوبائی، قومی اور سینٹ کے مخصوص نشستوں پر اُن اقلیتی ممبران کا انتخاب کیاجاتاہے جوکہ اپنے برادری کے مسائل کے حل کے لئے اُن کے پاس کوئی پلان موجود ہوں۔ اُنہوں اس تاثر کو رد کردیا کہ پارٹی اور اسمبلی میں اقلیتی برادری کے ممبران کو امتیازی سلوک کاسامنا کرناپڑرہاہے۔
اقلیتی نوجوانوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سرگرم سماجی رکن نینا سمسن نے آنے والے انتخابات میں اقلیتی برادری کے شرکت کے سوال پر کہاکہ ہر پانچ سال بعد یہی بات سنے کو ملتی ہے کہ اقلیتی برادری جمہوری عمل کا حصہ بنے تاکہ اُن کے مستقبل وہ بنیادی مسائل کے حل سے لیکر اسمبلی میں قانون سازی تک اقلیتی برادری کے لئے کام کرسکے لیکن سیوائے انتخابی نعروں کے کچھ نہیں ملا۔
اُنہوں نے کہاکہ اکثریت آبادی کے مقابلے میں ووٹ کے اہمیت کے حوالے اقلیتی برادری میں آگاہی کم ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کے شناحتی کارڈ تک نہیں بنے ہیں اور جن کے پاس کارڈ ہے تو وہ ووٹ کے اندارج اور انتخابات کے دن ووٹ کے استعمال سے ناواقف ہوتے ہیں۔
مخصوص نشستوں پر منتخب نمائندے کیا اقلیتی برادری کے مسائل حل کرسکتے ہیں؟
صائمہ امتیاز کاکہناہے کہ انتخابی مہم کے دوران علاقے کے تمام اُمیدوار ووٹ مانگے اور درپیش مسائل کے حل کے وعدیں کرتے ہیں تاہم منتخب ہونے کے بعد عائب ہوجاتے ہیں۔ اُن کے بقول اقلیتی برادری کے نسبت مسلم آبادی کے مسائل کے حل پر زیادہ توجہ دیا جاتاہے جبکہ اقلیتی برادری کو درپیش معمولی مسئلے کے حل کے لئے بھی کافی زیادہ بھاگ دوڑ کرنا پڑتاہے۔
بابا جی گوپال سنگھ کا کہناہے کہ صوبے مقامی حکومتوں کے اتنخابات میں ہر یونین اور ویلج کونسل کے سطح پر اقلیتی برادر ی کے ایک نشست مختص ہوتاہے جن پر وہ باسانی کے ساتھ ممبر منتخب ہوجاتاہے لیکن صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے لئے کوئی ایسا سیاسی جماعت نہیں جوکہ اپنے کسی اقلیتی رکن کو ایسے حلقے پر پارٹی کا ٹکٹ جاری کردیں جہاں پر اُن کے ووٹ زیادہ ہونے کے ساتھ نشست بھی جیت سکتاہے لیکن جمہوریت کے دعویدار سیاسی جماعتوں کے حوالے کوئی ایسا مثال ہی نہیں ملتا۔
اُ ن کاکہنا تھا کہ اقلیتی ممبر مخصوص نشست پر ممبرمنتخب ہوجاتاہے لیکن جب اپنے لوگوں کے فلاح وبہود کے لئے کوئی منصوبہ کرنا چاہتاہے تو باقی ممبران سے ہٹ کر اُن کے تمام معاملات محکمہ اوقاف کے حوالے کردیتاہے جہاں پر معمولی کام کے لئے بھی سالوں سال انتظار کرنا پڑتاہے جس کی ایک مثال 2008سے پشاور میں شمشان گھاٹ کے لئے مختص فنڈ جس پر آج تک ایک انچ زمین نہیں خریدی گئی۔
رادیش سنگھ ٹونی ساڑھے تین سال تک جنرل نشست پر کونسلر رہا لیکن مسلم ممبران کے نسبت اُن جیسے لوگوں کو بہت ہی کم توجہ دیا جاتاتھا۔ اُن کے بقول چھ مہینے بعد چار لاکھ فنڈ علاقے کے لئے ملتاتھا جس سے چند گھروں کے لئے پینے کے صاف پانی کے دستیابی کے لئے پلاسکٹ کا پائب بھی لگانا ممکن نہیں تھا۔
سید ولی شاہ آفرید ی کا بھی یہ مانا ہے کہ پاکستان کے سیاسی جماعتیں اقلیتی کارکنوں کو جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ٹکٹ نہیں دیتاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ماضی کے اس راویت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور پارٹی کے اجلاسوں میں ضرور اس حوالے سے بات ہوتی ہے کہ جہاں پر جماعت کے اقلیتی کارکنوں کے جیت کے مواقعیں موجود ہے تو اُن کو ٹکٹ مہیا کیاجائے تاکہ وہ صحیح طریقے سے نہ صرف اپنے لوگوں بلکہ اکثریتی آبادی بھی حدمت کرسکے لیکن اس حصے میں مسائل موجودہ ہیں۔
ضم اضلاع سے پہلے صوبائی مخصو ص نشست پر منتخب تحریک انصاف کے رکن و سابق ممبر صوبائی اسمبلی ویلنس وزیر اور تحریک انصاف کے مخصوص نشست پر منتخب سینٹر گورددیپ سنگھ سے اقلیتی برادری کے حدشات سامنے رکھیں لیکن اُن کے طرف جواب دینے کے لئے انکار کیاگیا۔
انتخابی عمل میں اقلیتی برادری کس قسم کے خوف کے شکار
پیشے کے لحاظ کاروباری شخص عبدالقادر کا تعلق احمدی اقلیت سے ہے۔ اُن کا ووٹ تو رجسٹرڈ نے تاہم وہ خود، خاندان اور باقی رشتہ دار کسی بھی ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ سٹیشن نہیں گئے ہیں۔اُنہوں نے بتایاکہ پوری انتخابی عمل میں خوف کی وجہ سے صوبے بھر میں رہائش پزیر احمدی حصہ نہیں لیتے اور اس پوری عمل سے وہ الگ رہتے ہیں۔ اُن کے بقول شدید مذبہی نفرت کے بناء پر اُمیداور بھی اُن سے ووٹ مانگے کے لئے نہیں آتے۔
صائمہ امتیاز کا کہناہے انتخابات کے دن اقلیتی برادری کے بہت ہی کم لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے نکلتے ہیں کیونکہ ایک تو ووٹ کے حوالے سے آگاہی کی کمی ہے تو دوسرے طرف سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان تشدد کے واقعات رونما ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ وہ اپنے برادری میں لوگوں کو ووٹ کے اہمیت کے حوالے گھر گھر جاکر خواتین اور مردوں سے بات کرتی ہے تاکہ اپنے مرضی کے اُمیدوار کو رائے دیں سکے
خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کے لئے چار صوبائی نشستیں مختص
مئی 2018میں پچیسیویں آئینی ترمیم کے ساتھ سابق سات قبائلی ایجنسیز اور چھ ایف آر ز کو صوبہ خیبر پختونخوا کاحصہ قرار دیا گیا اور پہلی بار ملک کے آئین اور تمام سرکاری ااداروں کے توسیع ان علاقوں کو ہوئی جن میں صوبائی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد بھی ممکن ہوا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ضم اضلاع کو 16جنرل، 4خواتین اور ایک نشست اقلیتی برادری کے لئے مختص کردیا گیا جس سے صوبے میں مجموعی طورپر صوبائی اسمبلی کے نشستوں کی تعداد بڑھ 145تک پہنچ گیا۔ مذکورہ اعدادشمار میں 26خواتین اور چار اقلیتی برادری کے لئے نشستیں مختص کردئیے گئے۔
مذہبی اقلیتوں کا ووٹ بینک بڑھا
ملک میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی تعداد 2018 میں چھتیس لاکھ تیس ہزار سے بڑھ کراب چوالیس لاکھ تیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
2013کے عام انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹرز کی تعداد ستایس لاکھ ستر ہزار تھی۔ ملک بھر میں ہندو ووٹرز 20 لاکھ 73 ہزار 983 جبکہ مسیحی 17 لاکھ 3ہزار288 ہیں اور باقی اقلیتوں کے ووٹ 1 لاکھ 74 ہزار 165 ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 36 لاکھ 31 ہزار 471 تھی۔
خیبر پختونخوا میں زیادہ رجسٹرڈ وٹ ضلع پشاور میں 19 ہزار 749، نوشہرہ میں 4 ہزار 723، کوہاٹ میں 30 ہزار 036، خیبر میں 2 ہزار 314، ایبٹ آباد میں ایک ہزار 951 ووٹرز رجسٹرڈہیں۔ خیبر پختونخوا میں 5 اضلاع ایسے ہیں جن میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔ ان میں کولئی پالس میں 8، کوہستان لوئرمیں 12، چترال اپرمیں 19، کوہستان اپر میں 25 اور کرک میں 89 ووٹ کے لئے رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔
اقلیتوں کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترامیم
الیکشن ایکٹ 2017 کے نفاذ کے بعد اقلیتوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے قانون سازی کی گئی تھی۔ ایکٹ کی دفعہ 48 میں مذہبی اقلیتوں کے لیے درج ذیل خصوصی اقدامات اٹھانے کا کہا گیاکہ
1۔ انتخابات کے لیے اقلیتوں کی انتخابی فہرستوں میں معذور افراد اور ٹرانس جینڈر شہریوں کی رائے دہندگان کی حیثیت سے رجسٹریشن کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔
2۔ مذہبی اقلیتوں میں موجود معذور افراد اور ٹرانس جینڈر کے قومی شناختی کارڈ بنائے جائیں اور ہدایت کی گئی کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی اس کام کو جلد از جلد مکمل کرے۔
3۔ انتخابی حلقوں میں مردوں اور عورتوں کے ووٹوں کی شرح کا اندراج تو موجود ہے جبکہ قومی اسمبلی کے کس حلقے میں اقلیتی مردوں اور عورتوں کے کتنے ووٹ ہیں، یہ اعدادوشمار حلقہ وار رجسٹرڈ ووٹرز کی لسٹ میں شامل کیے جائیں۔
خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کن مسائل کا شکارہے.
رادیش سنگھ ٹونی نے کہاکہ جن علاقوں میں اقلیتی برادری رہتے ہیں وہاں پر مسائل زیاد ہے کیونکہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مقامی حکومتوں، صوبائی و قومی اسمبلی سمیت سینٹ کے ممبران کو فنڈ جاری کردیا جاتاہے اور یہی لوگ وہاں پر یہ خرچ کرتے جہاں پر اُن کو ووٹ ملا ہویا آنے والے الیکشن میں اُن سے ووٹ لینے کی توقع ہو۔
اُن کے بقول ترقیاتی منصوبے اس بنیاد پر علاقوں میں کیاجاتاہے جہاں منتخب ممبر کی حامی زیادہ ہوں جبکہ محصوص نشستوں پر منتخب اقلیتی ممبران کے پاس فنڈ اتنا نہیں ہوتاکہ جس سے وہ اپنے لوگوں کے مسائل حل کرسکے۔نہ صر ف بنیادی سہولیات بلکہ خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادر ی کو ایسے مسائل بھی درپیش ہے جوکہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ساتھ جڑے ہیں۔
بابا جی گورپال سنگھ نے بتایاکہ پوری ضلع پشاور اور نواحی علاقوں میں سکھ اور ہندووں برادری کے لئے شمشان گھاٹ جیسے بنیاد ی سہولت میسر نہیں جہاں پر یہ لوگ اپنے پیاروں کے آخری رسورمات ادا کریں۔
اُن کے بقول محکمہ مذبہی اُمور، عشروزکوۃ نے 2008میں شمشان گھا ٹ کے لئے زمین کی خریداری کے لئے فنڈ مختص کردیا ہے لیکن آج تک ایک انچ زمین نہیں خریدی گئی۔اُنہوں نے سکھ برادری کے پیدائش اور وفات کے اسناد تو بن سکتے لیکن نکاح نامہ نہیں کیونکہ اس کے صوبے میں کوئی قانونی موجود نہیں ہےاور شناحتی کار ڈ بنانے میں کافی زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ اُن کے بقو ل پنجاب میں سکھ انند کراج ایکٹ2017 میں بنا ہے تاہم اُن کے اب رولزآف بزنس نہیں بنائے گئے جبکہ وہاں پر قانون بنانے کے بجائے خیبر پختونخوا میں بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں پر سکھوں کے تعداد زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے اسمبلی میں ہمارے لوگوں کے اُسطر ح نمائندگی موجود نہیں کہ یہ بنیاد ی مسئلہ حل کرسکے۔
صائمہ امتیاز نے کہاکہ اقلیتی برادری کے لوگ اپنے مسئلے کے حل کے لئے منتخب ممبران کے ساتھ سرکاری دفتر کے کئی چکر کاٹنے کے بعد کہیں پر حل ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ آگر اقلیتی برادری کے منخب نمائندے ہونگے تو بہت سے مسائل آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان ہارون شینواری نے بتایاکہ کمیشن اُن تمام پاکستانیوں کو بلا تفرق یعنی جنس اور مذہب کے ووٹ ڈالنے کے حق دیتاہے جن کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہوں ۔ اُنہوں نے کہا کہ اقلیتی برادری سمیت تمام افراد کو پر امن ماحول میں اپنے راے کے اظہار کے لے کمیش تمام وسایل براے کا رلارہے ہیں ۔
نادراکے ترجمان فاق چاچڑ نے کہاکہ ملک میں ہر شہری کو قومی شناختی کارڈ فراہم کرنا نادرا کی ذمہ داری ہے اور حد ف تک پہنچنے کیلئے قائم دفاتر کے علاوہ بستیوں میں موبائل وین بھیج جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو اُن کے گھرپر ہی شناختی کارڈ کی حصول ممکن ہوسکے ۔
اُنہوں نے کہا کہ خواتین کو نادرا کے قائم دفاتر تک پہنچنے میں دشواری کی وجہ سے موبائل وین ہی سے وہ اپنے لئے باسانی اپنا کارڈ بنوا سکتی ہیں۔ اُن کے بقول اب بھی بعض علاقوں میں آگاہی کی کمی کی بناء پرلوگ شناختی کارڈ کی سہولت سے محروم ہیں جن میں اقلیتی برادری کے لوگ بھی شامل ہیں ۔