دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کریں گے، امریکی محکمہ خارجہ

واشنگٹن:ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ دہشت گرد پاکستان پر حملوں کیلئے افغان سر زمین استعمال کر سکتے ہیں۔نیڈ پرائس نے پریس بریفنگ میں کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد منظم ہو رہے ہیں، خدشہ ہے افغانستان پھر سے عالمی دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بن جائے، پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اہم شراکت دار ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون جاری ہے، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کریں گے، ایسے تمام اقدامات کریں گے جس سے ہمارے مفادات متاثر نہ ہوں۔ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان میں کسی ایک شخصیت کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے، ہم صرف پاکستانی عوام اور آئین کے ساتھ ہیں، رجیم چینج کے حوالے سے جھوٹی افواہوں کی تردید کرچکے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ہمیں رپورٹ موصول ہوئی ہے کہ کابل میں پاکستانی ناظم الامور پر حملے کی ذمہ داری داعش خراسان گروپ نے قبول کی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا القاعدہ ،داعش خراساں، کالعدم جماعت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے پُر عزم ہیں جو امریکا اور دیگر شراکت داروں اور دوست ممالک کے لیے خطرہ ہیں۔خیال رہے کہ 3 دسمبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستان کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا جہاں ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ محفوظ رہے جبکہ ایک سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہوگیا۔اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں سرگرم عسکریت پسند دہشت گرد ہمارے مشترکہ حریف ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے امریکا اور پاکستان مشترکہ مفاد رکھتے ہیں، امریکی حکام نے ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی حمایت کا وعدہ بھی کیا۔خ

یال رہے کہ گزشتہ ماہ 28 نومبر کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ جون میں طے پانے والا سیز فائر ختم کرتے ہوئے اپنے دہشت گردوں کو ملک بھر میں حملوں کا حکم دے دیا تھا۔رواں ماہ کے اوائل میں امریکا نے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور جنوبی ایشیائی القاعدہ کے رہنماؤں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا اس کے علاوہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم کا بھی اظہار کیا تھا۔

اس اعلان کے بعد امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے اور ملک کے سفارت خانے کے ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ ناظم الامور پر حملے پر ہمیں شدید تحفظات ہیں اور واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات چاہتے ہیں۔امریکا میں مقیم پاکستانی دفاعی ماہر شجاع نواز نے بتایا کہ یہ پاکستان اور امریکا دونوں کے مفاد میں ہے کہ وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کی کارروائیوں کی نگرانی اور انہیں ختم کرنے میں تعاون جاری رکھیں۔شجاع نواز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغان سرزمین کو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے پر ٹھوس موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے، افغان سرزمین سے ہونے والے کسی بھی حملے کا ذمہ دار افغانستان کو ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف فوری مربوط جوابی کارروائی کرنی چاہیے۔