(شہریار محسود)
الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل کچھ زیادہ ہی تیز ہو گئی ہے۔ اس ہلچل کا پریشان کن نظارہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈر شپ الیکشن کے برعکس سلیکشن کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نظام کو کہاں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ اس سارے شور و غوغا میں ملک اور خطے کے زمینی حقائق بھی نظر انداز کئے جارہے ہیں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ سیاسی قیادت کو اس بات کا ادراک نہیں ہے۔
سینئر صحافی حامد میر نے نجی ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا کہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکا اشرف پی ایس ایل ملک سے باہر منعقد کرا رہے ہیں اور انہوں نے فرنچائز مالکان سے کہا ہے کہ فروری میں ملک کے حالات ایسے نہیں رہیں گے کہ ملک میں پی ایس ایل کا انعقاد کرایا جا سکے۔ حامد میر یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ ذکا اشرف سے پوچھا جائے کہ ان کو کس نے بتایا ہے کہ فروری میں ایسے حالات کا سامنا ہو سکتا ہے؟
پی ایس ایل کے حوالے سے اب کچھ نئی باتیں 92 نیوز کے عامر متین نے بھی کی ہیں جس کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل کو باہر اس لیے منعقد کیا جارہا ہے کہ ایک سپانسر کمپنی پر پاکستان میں پابندی عائد ہوگئی ہے جو بنیادی طور پر جوے سے منسلک ہے۔ میرا خیال ہے کہ پی ایس ایل اتنا بڑا برانڈ بن چکا ہے کہ پی سی بی کو سپانسرز کی کمی نہیں ہے ہاں حامد میر کے انکشافات کے بعد کوئی متبادل بیانیہ بھی سامنے لانا ہوگا۔
لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام سے لکھے بلاگ میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے اپنے تحفظات پہلے ہی ظاہر کرچکا ہوں لیکن تفصیلی بات ناموزوں سیاسی گراؤنڈ کے حوالے سے کی تھی۔
اس وقت خیبرپختونخوا میں حالات انتہائی خراب ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ پہلے دہشت گردی کے واقعات سابقہ فاٹا تک محدود تھے جبکہ اس وقت بندوبستی اضلاع میں جس طرح کے منظم واقعات پیش آرہے ہیں وہ انتہائی حیران کن اور پریشان کن ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں خیبرپختونخوا پولیس پر کئی جان لیوا حملے ہوئے ہیں جس میں درجنوں لوگ جان سے گئے ہیں اور دوسری طرف افغانستان کے ساتھ جس تیزی کے ساتھ تعلقات خرابی کی طرف جا رہے ہیں، میری نظر میں یہ اب مزید بدتر ہوتے جائیں گے۔
ہم یہ بات تو بڑی آسانی سے کہہ دیں گے کہ افغانستان سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو شہ مل رہی ہے لیکن تصویر کے دوسرے رخ پر بات کرنے کی اجازت نہیں ملے گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کے ساتھ نفرتوں میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے بلکہ یوں لگ رہا ہے کہ نفرتوں کے اس نئے مرحلے کو پر لگائے جا رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں عام سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ افغانوں پر ہمارے اتنے اتنے احسانات ہیں لیکن بدلے میں ہمیں افغانوں سے نفرت مل رہی ہے حالانکہ اگر ہم اپنے چشموں کے نمبر درست کرلیں گے تو وہ تمام پوشیدہ وجوہات ہمارے سامنے ہوں گی جس سے افغانستان کے لوگ گزشتہ چالیس پینتالیس سالوں سے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
بہرحال موضوع ہمارا یہ ہے کہ اگر آنے والے حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو کیا الیکشن کے انعقاد پر سوالات نہیں اٹھیں گے؟ ذاتی طور پر میری سوچ پہلے ہی سے یہی ہے کہ الیکشن کا انعقاد مشکل ہو جائے گا جس طرح کے حالات اس وقت ہمارے سامنے ہیں یا یہاں گراؤنڈ پر جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے، اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ آگے کا نقشہ کیسے ابھرے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ فروری تک ہمارے اس بارڈر پر بھی خطرناک منظر سامنے آسکتا ہے اور ایسے میں سسٹم کے پاس ایک مظبوط جواز ہوگا کہ الیکشن نہیں ہو سکیں گے۔
حالات کے تناظر میں کچھ مہربان جن کے ملکی حالات پر گہری نظر ہے، ان سے ممکنہ آنے والے حالات پر بحث ہوتی ہے تو وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آپ نے حالات کا کچھ زیادہ ہی منفی اثر لیا ہے۔ خود بھی ان باتوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور یہ کافی حد تک درست اور فطری بھی ہے کہ انسان حالات سے متاثر ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ دکھتی چیزیں غلط نظر آئیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت الیکشن سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت ملک میں بالخصوص خیبرپختونخوا میں بڑھنے والی بدامنی کے تدارک پر توجہ دی جائے اور خلوصِ نیت سے بیس سالوں سے بدامنی میں ہزاروں افراد کی شہادتوں کو مدنظر رکھا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز سمیت دیگر محکموں کےذمہ داروں کو بٹھایا جائے اور ان کے ساتھ ہوائی باتیں کرنے کے بجائے ان کو وہ تصویریں دکھائیں جو ملک کی جڑیں کاٹ رہی ہیں لیکن اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ بتانے والوں کے دلوں میں ہمیشہ کی طرح کھوٹ نہ ہو تب ہی شاید آپسی عدم اعتماد کی فضا کم ہو اور بطورِ ریاست ایک حل ڈھونڈا جا سکے ورنہ یوں ہی بے گناہ لوگ نشانہ بنتے رہیں گے۔
بیس پچیس سالہ طاقت کے غیر ضروری استعمال کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ لہٰذا ہمیں حل کی طرف جانا ہوگا۔ جنگی کاروبار سے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا اور کم ہوتے ہوئے آپشنز ختم ہو جائیں گے۔
افغانستان کے ساتھ جنگی ماحول ہمارے لیے خطرات کا باعث رہے گا اور وہ طاقتیں جو ہمیں اس طرف دھکیلنے کی کوشش کررہی ہیں سب جانتی ہیں، اور شاید ہم اس نئے مرحلے کو آسان سمجھ رہےہیں لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت خیبرپختونخوا میں لوگ اتنے بدظن ہو چکے ہیں کہ آپ کو پہلے یہاں کے لوگوں کو جیتنا ہوگا۔ یقیناً میری باتوں میں تلخی ہے اور مجھے لکھتے ہوئے خود بھی تکلیف محسوس ہورہی ہے لیکن کیا کریں کہ جس تکلیف کے ماحول میں ہمارا بسیرا ہے وہاں سے اچھی باتیں کیسے سامنے آئیں گی؟ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت ہم جن حالات کے شکار ہو چکے ہیں ان میں ہمیں جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانی ہوگی اور امن کے حصول کے لیے اپنی اناؤں کی قربانیاں دینا ہوں گی۔ آج سے دو سال پہلے تک ایسی بات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن اب آئینہ دکھ گیا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہم نے سسٹم سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ ہماری خام خیالی تھی۔ امید پر دنیا قائم ہے لیکن جب امید اتنے سالوں سے آپ کی دنیا ہی منجمد کرکے رکھے تو امید سے بھی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ان سارے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ملک کی سیاسی سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز کے افکار و کردار پر نظر ڈالتا ہوں تو مایوسی میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس وقت صرف لوٹ مار اور ذاتی مفادات کے سوا کسی کو عوام یا انسانوں کی پرواہ نہیں ہے۔
نوٹ :یہ تحریر وی نیوز پر آج بروز اتوار 26 نومبر کو شائع ہوچکی ہے.