شہریار محسود
ہمارے ملک میں مذہب کا استعمال کرکے ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کی جاتی رہی ہے اس لیے مدارس ترمیمی بل، مدارس رجسٹریشن وغیرہ جیسی باتیں ایک عرصے سے سنتے آرہے ہیں لیکن ہر بار اس حوالے سے ہونے والی باتیں محض باتیں ہی ثابت ہوتی ہیں کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مذہب کو ایسے کاروبار کی شکل دے دی گئی ہے جو سب سے زیادہ کامیابی کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔
اسلامی مدارس دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں موجود ہیں لیکن پاکستان میں مدارس کے نام پر ایک بے لگام سسٹم چلایا جا رہا ہے جس کا ریاستی نظام کے ساتھ کوئی تعلق دکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے بل کی منظوری کو ان حلقوں نے بھی سراہا تھا جو پی ٹی آئی حکومت کے سخت ناقد تھے کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمارے معاشرے کی ترقی کا تعین کرسکتی ہے لیکن دوسری صورت میں ہم معاشرتی پستی کے ہی شکار رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمان صاحب مدارس کی وزارت تعلیم کے ساتھ الحاق کی مخالفت کیوں نہ کریں؟ مولانا صاحب کی پوری سیاسی قوت انہی غیر رجسٹرڈ مدارس میں موجود ہے۔ اس وقت خیبرپختونخوا کے اسلامی مدارس میں پڑھنے والے طلباء و طالبات جے یو آئی کی سیاسی ونگ کے بنیادی بازو کہے جا سکتے ہیں۔ ہم ایک عرصے سے عرض کرتے آرہے ہیں کہ مذہب کو سیاست سے پاک کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ مدارس کو ریاستی عملداری میں لایا جائے۔ مدارس اگر وزارتِ تعلیم کی زیر نگرانی آتے ہیں تو اس سے کون سا مسئلہ پیدا ہوگا؟ کیا مدارس میں پڑھائے جانے والے مذہبی لٹریچر میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوگی؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس وقت اسلامی مدارس میں اسلامی تعلیمات تو پڑھائی جاتی ہیں مگر وہ دنیاوی تعلیمات نہیں پڑھا رہے جس کی کمی ہمارے پورے معاشرے کو ہے۔
آج کے جدید دور میں جب دنیا سیاروں کی مدار میں انسانی رہائش کے طریقے ڈھونڈ رہی ہے ہم بنیادی ترقی کے حصول سے کوسوں دور ہیں، ہمیں اس دور میں اس دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کرنی ہے جو شام سے لے کر افغانستان تک مسلمانوں کے ساتھ کھیل کھیلتے ہیں جنہیں پوری مسلمہ امہ کو ایسے جکڑ رکھا ہے کہ آزادی کی صرف ایک ہی صورت نظر آرہی ہے کہ ہم بھی وہ ترقی کریں جن کے ذریعے انہوں نے ہمیں سرنگوں کر رکھا ہے۔ اگر آپ واقعی دل سے سمجھتے ہیں کہ طاقتور ممالک نے ہمیں اپنا غلام بنا رکھا ہے تو یہ سوال خود سے ضرور کریں کہ کیا غلامی کی یہ زنجیریں اسی علم کے ذریعے نہیں توڑی جا سکتیں جس کے بارے میں ہم یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ایجادات کی ابتدا مسلمان سائنسدانوں نے کی تھی مگر اب ایسا کیوں نہیں ہورہا؟ اب ہم سائنس سے اس قدر خوفزدہ کیوں رہتے ہیں؟ کیا ہم نے سوچا ہے کہیں ہمیں مذہب میں جکڑنے والی بھی وہی طاقتیں تو نہیں ہیں؟
اگر آپ اس کا جواب گہرائی میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو اس سوال کا جواب ہاں میں ہی ملے گا۔ کئی علماء کرام مدارس میں اصلاحات کو غیر ضروری ریاستی عمل دخل قرار دے رہے ہیں جو کہ ان کی سوچ کے تناظر میں درست ہو سکتا ہے لیکن ایک سوال یہ بھی تو بنتا ہے کہ آپ انہی مدارس سے لی گئی ڈگریوں کے ذریعے سرکاری نوکری بھی لیتے ہیں اور یہاں سے حاصل کی گئی سند کی یونیورسٹی کے ڈگری برابر سند کہلوانے میں کوئی مسئلہ کیوں نظر نہیں آ رہا؟
ایسا کرنے میں کیا حرج ہے کہ ہم مدارس کو حقیقی علم کی درسگاہیں بنائیں جہاں تمام والدین اپنے بچے اور بچیوں کو بھیجنے میں کوئی دقت محسوس نہ کریں؟ یہ سچ ہے کہ اگر والدین کو دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کا یقین ملے گا تو وہ اپنے بچوں کے لیے اسلامی مدارس کا ہی انتخاب کریں گے۔ اس حوالے سے بھی بعض علماء کرام دعویٰ کررہے ہیں کہ اسلامی مدارس میں اسلامی تعلیمات کے علاؤہ دنیاوی تعلیمات بھی دی جاتی ہیں جو کہ یہ بات علامتی حد تک تو درست مانی جاسکتی ہے مگر حقیقی سوال یہ ہے کہ پڑھانے والے کو دنیاوی تعلیم کس نے پڑھائی تھی؟ کیا پڑھانے والے میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ بچے یا بچی کو وہ سمجھا بھی سکے جو چیز پڑھا رہا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے لیکن جاننے کے لیے ہمیں اپنے اندر جھانک کر حقیقی نظروں سے دیکھنا ہوگا۔
سالوں سے ہم یہ سوال بھی سنتے آرہے ہیں کہ اسلامی مدارس کو ہونے والی فنڈنگ کے ذرائع بتائے جائیں مگر ایسے سوالات پوچھنے والوں کو مذہبی طبقات کے فتووں اور سخت ردعمل کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑ جاتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں مذہب انتہائی حساس مسئلہ ہے اور مذہب کو کاروبار بنانے والے اس کا استعمال کرنا خوب جانتے ہیں اور ایسے میں اگر آپ نے ان کے ذاتی مفاد پر سوالات اٹھائے تو وہ ان سوالات کو آسانی کے ساتھ اسلام کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں اور پوچھنے والوں کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، اس لیے اگر حکومت مدارس کو حقیقی علمی درسگاہیں بنانے میں سنجیدہ ہے تو یہ اہم موقع جانے نہیں دینا چاہیے۔
اسلام حق اور سچائی پر مبنی عظیم دین ہے مگر اس عظیم مذہب کا غلط استعمال کرنے والے دین اسلام اور معاشرے کے دشمن ہیں۔