داود خٹک
جب عبید سالارزئی نے مولانا خان زیب کو الوداع کہا جو ایک پرامن ریلی کے لیے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ایک اور سمت روانہ ہو رہے تھے تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہوگی۔
دونوں کئی سالوں سے کندھے سے کندھا ملا کر قبائلی ضلع باجوڑ میں امن اور سلامتی کے لیے انتھک کام کرتے رہے تھے۔ محض بیس منٹ بعد سالارزئی کے فون پر ایک دل دہلا دینے والا پیغام آیاکہ مولانا خان زیب اور ان کے ڈرائیور کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔
مولانا خان زیب کی موت اس خطرے کو نمایاں کرتی ہے جس کا سامنا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن کے لیے سرگرم کارکنوں کو مسلسل ہوتا ہے، جہاں تشدد اور سیاسی عدم استحکام معمول بن چکا ہے۔
سالارزئی نے فون پر ریڈیو فری یورپ کو بتایاکہ خان زیب پہلے شخص نہیں تھے اور بدقسمتی سے وہ آخری بھی نہیں ہوں گے جو اس خطے میں امن و سلامتی کے لیے اپنی جان قربان کریں گے۔
خان زیب ان کئی امن کارکنوں میں شامل تھے جو کبھی فاٹا (وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے) کہلانے والے شورش زدہ قبائلی خطے میں استحکام کے پرجوش حامی رہے۔ باجوڑ جو اسلام آباد سے تقریباً 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ان کا آبائی ضلع تھا۔
فائرنگ کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی تاہم 11 جولائی کو خان زیب کے جنازے میں شریک غمزدگان اور کارکنوں نے اردو میں نعرہ لگایا: “یہ جو نامعلوم ہیں، ہم سب کو معلوم ہیں۔”
پاکستانی امن کارکنوں کا الزام ہے کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں مختلف شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے تزویراتی (اسٹریٹجک) مقاصد اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات حاصل کر سکیں۔
عوامی نیشنل پارٹی نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ وہ خان زیب کے قتل پر حکومت کے خلاف مقدمہ درج کروا رہی ہے۔ صوبائی رہنما میاں افتخار حسین نے اسے پشتون شعور، امن، اور مزاحمتی سیاست پر حملہ قرار دیا۔
پاکستان کے قبائلی علاقے افغانستان کی سرحد کے ساتھ مشرق سے مغرب تک ہلال کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تاریخی طور پر اس سرحدی علاقے کو برطانوی نوآبادیاتی حکام نے برصغیر کی تقسیم سے قبل برطانوی سلطنت اور آہنی پردے (Iron Curtain) کے درمیان ایک تزویراتی بفر زون کے طور پر دیکھا تھا۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقے جن میں قبائلی علاقے شامل ہیں زیادہ تر نسلی پشتونوں پر مشتمل ہیں جنہیں نوآبادیاتی دور کی قائم کردہ ڈیورنڈ لائن نے افغانستان سے جدا کر دیا ہے۔
11 ستمبر 2001 کے امریکہ پر حملے جن میں ہزاروں افراد مارے گئے نے اس علاقے کی طالبان شدت پسندی کے مرکز کے طور پر شہرت کو اجاگر کیا۔
پاکستان کا قبائلی خطہ، جس میں سات اضلاع شامل ہیں ،باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان، اور جنوبی وزیرستان طویل عرصے سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان ٰ(ٹی ٹی پی) کا گڑھ رہا ہے۔
2001 کے آخر میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغان طالبان اور القاعدہ کے کئی ارکان اور رہنما اس علاقے میں پناہ گزین ہو گئے۔
پاکستانی حکومت نے ان شدت پسند گروہوں کو ختم کرنے کے لیے متعدد فوجی کارروائیاں شروع کیں۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً دس لاکھ افراد بے گھر ہو کر خیمہ بستیوں، کرایے کے مکانوں یا شہری علاقوں میں رشتہ داروں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
اگرچہ فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے شدت پسندوں کو افغان سرحد کے پار دھکیل دیا ہے لیکن خطرہ کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستانی طالبان نے دوبارہ سرگرم ہو کر سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے گورنر نے ریڈیو فری یورپ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ بعض علاقوں میں رات کے وقت مسلح طالبان شدت پسندوں کا کنٹرول ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن جو ایک ممتاز مذہبی اسکالر اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ ہیں نے بتایا کہ ریاست کی رٹ وزیرستان اور ملحقہ کچھ اضلاع میں شام کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی سیاسی رہنما اور امن کارکن محسن داوڑ نے کہا کہ ریاست خود شریک جرم ہے۔
فروری 2024 میں شمالی وزیرستان میں انتخابی نتائج کے خلاف ایک ریلی کے دوران جس کی قیادت محسن داوڑ کر رہے تھے پولیس کی فائرنگ سے دو کارکن جاں بحق اور داوڑ شدید زخمی ہوئے تھے۔
محسن داوڑ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بانی ارکان میں سے ہیں دیگر نمایاں شخصیات میں علی وزیر اور منظور پشتین شامل ہیں۔
قبائلی علاقوں سے رکن اسمبلی رہنے والے علی وزیر،جو ریاست کی طالبان مخالف پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں، ریاستی اداروں کے خلاف بیانات کے الزامات میں تقریباً دو برس سے جیل میں ہیں۔
منظور پشتین جنہوں نے پاکستان بھر میں درجنوں ریلیوں کے ذریعے قبائلی علاقوں میں امن اور سلامتی کا مطالبہ کیا دسمبر 2024 سے جان کے شدید خطرات کے پیش نظر منظرعام سے غائب ہیں۔
داوڑ کے مطابق عوامی بیداری ریاستی سلامتی کے اداروں کو قابل قبول نہیں کیونکہ ان کے اسٹریٹجک مقاصد امن سے مختلف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امن کارکنوں کو انتہائی خطرات لاحق ہیں کیونکہ انہیں ان مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستانی فوج کا مؤقف ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے حملوں میں درجنوں فوجی جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ حکومت ان کے خلاف کارروائیوں کی کوشش کر رہی ہے۔
ٹی ٹی پی اور داعش خراسان جیسے گروہ سیکیورٹی فورسز، حکومتی اہلکاروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتے رہتے ہیں جبکہ امن کیلئے متحرک کارکنان کا الزام ہے کہ ریاستی سلامتی کے ادارے خود انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔
خیبر ضلع میں پی ٹی ایم کے ضلعی رابطہ کار آفتاب شنواری نے ریڈیو فری یورپ کو بتایا کہ انہیں امن جرگہ منعقد کرنے کی کوشش پر جیل بھیجا گیا اور کارکنوں کو نامعلوم نمبروں سے دھمکی آمیز کالز اور پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ کارکنوں کو نشانہ نہیں بناتے تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو افراد فوج کو بدنام کرتے ہیں یا ریاست کے خلاف کام کرتے ہیں انہیں برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جنوری 2025 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے موجودہ قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے ریاستی اداروں کو یہ اختیار دیا کہ وہ سوشل میڈیا پر “جھوٹی معلومات” پھیلانے والے افراد کو تین سال تک قید میں رکھ سکتے ہیں۔
ان چیلنجز کے باوجود امن کارکن پرعزم ہیں۔
سالارزئی کا کہنا ہے کہ ان کی جدوجہد کا مقصد امن اور سلامتی ہے۔
انہوں نے کہا ہم اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم ریاستی ہو یا غیر ریاستی عناصر امن کو تباہ کرنے کی ہر کوشش کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
نوٹ: یہ فیچر رپورٹ اس سے پہلے ریڈیو فری یورپ کی ویب سائیٹ پر آج شائع ہوچکی ہے۔