شہریار محسود
آپریشن راہ نجات اور ضرب عضب کے بعد وزیرستان سمیت خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہو گئی تھی۔ 2017 کے بعد تبدیلی نے انگڑائی لینا شروع کی لیکن 2019 کے بعد حالات اتنی تیزی سے بدلے جیسے پہیے لگا دیے گئے ہوں۔ 2021 تک پختونخوا میں نائن الیون کے بعد جیسی صورتحال تھی۔ اس دوران کیا ہوا کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ اس پر بہت کچھ چھپ چکا ہے اور یہ ہمارا موضوع بھی نہیں۔ البتہ 2019 سے 2021 کے دو سالوں میں جو کچھ ہوا، اس حوالے سے بات کرتے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا کو ڈیپ سٹیٹ سے زیادہ نقصان عمران خان نے پہنچایا ہے۔ 2012/13 میں دوبارہ لانچنگ کے بعد سے اب تک خان صاحب نے پشتونوں کے حوالے سے جب بھی کچھ کہا ہے، پشتونوں کے نقصان پر ہی منتج ہوا ہے۔ خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو دنیا جہاں کے کلچر، تاریخ اور معاشرے کا پتہ ہوتا ہے لیکن عملی طور پر ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ 2018 میں خان کی حکومت آنے کے بعد ان کے انہی کمالات کا استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے آج خیبرپختونخوا آگ و خون کی ایک نئی جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔
تواتر سے کہتا آیا ہوں کہ ہر بار پشتونوں کے جذبات ہی پشتونوں کے خلاف استعمال ہوتے آرہے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ تو پڑ گیا مگر خیبرپختونخوا کے لوگ اس کی قیمت بھی ادا کریں گے۔
اس وقت خیبرپختونخوا میں عملی طور پر ریاستی رٹ کس قدر برقرار ہے؟ اس پر مولانا صاحب سمیت خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی لیڈرشپ وقتاً فوقتاً روشنی ڈالتی رہی ہے البتہ عام لوگ چاہتے کیا ہیں؟ اس کا اندازہ بنوں پاسون سے لگایا جاسکتا ہے۔ امن کے لیے بنوں پاسون (احتجاج) کی کال دینے والے منتظمین کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ سو دو سو لوگ ہوں گے اور ایک چھوٹے سے پارک میں پروگرام رکھ لیا لیکن بنوں کے لوگ اتنی تعداد میں نکلے کہ شہر کے بڑے بڑے گراؤنڈز ان لوگوں کو سنبھالنے کے لیے چھوٹے پڑ گئے۔
میرے خیال میں بنوں میں لوگوں کا اس طرح نکل آنا اعلیٰ حکام کی آنکھیں کھولنے کی ابتداء ہونی چاہیے کیونکہ اس وقت عام لوگوں میں بے چینی کافی بڑھ چکی ہے جو خدانخواستہ ناخوشگوار واقعات کا موجب بھی بن سکتی ہے۔
اس وقت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں امن کے حصول کے لیے احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہے۔ اس سلسلے کی ابتداء سوات سے ہوئی تھی جہاں ہزاروں افراد نے احتجاج کیا تھا۔ بنوں کے علاؤہ ضلع ٹانک میں بھی کئی دن تک ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا ہوا جو سیکورٹی فورسز کے زمہ داروں سے کامیاب مذاکرات کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ ٹانک دھرنے کے حوالے سے دھرنا منتظمین کا کہنا ہے کہ حکام نے ان کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ دو تین ہفتوں میں حالات کو کنٹرول کرلیا جائے گا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم دوبارہ احتجاج کے لیے نکلیں گے۔
خیبرپختونخوا میں حالات کی خرابی کی وجہ سے اس وقت کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید کم تر ہورہی ہے اور دوسری طرف مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ میں ایسے خاندانوں کو جانتا ہوں جو آج سے دو تین سال پہلے اچھی خاصی زندگی گزار رہے تھے لیکن اس وقت تنگ دستی کا یہ حال ہے کہ بچوں کا پیٹ پالنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ میں اگر اپنے علاقے کی بات کروں تو تین سال پہلے کے مقابلے میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے اور یقیناً وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور روزگار و کاروبار کی کمی ہے۔
اس لیے حکام کو حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ لوگوں کو یقین دہانی کرانی ہوگی کہ ریاست آپ کے ساتھ ہے اور ثابت کرنا ہوگا کہ ریاست حقیقت میں ماں جیسی ہوتی ہے کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے یہاں کے لوگوں اور حکومتوں کے درمیان اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ غلط فہمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو کسی طرح بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ایک ایسے وقت اسلام آباد میں اقتدار کی رساکشی ہو رہی ہے جب ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ان اعلیٰ دماغ رہنماؤں اور طاقتوروں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ جس کرسی کے لیے ہم ان حالات میں لڑ رہے ہیں اس کرسی کے پیر انتہائی کمزور ہو چکے ہیں، پہلے مسند کی مرمت تو کریں، کہیں دیر نہ ہو جائے۔
عظیم باچا خان ایک جگہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ میں بنیادی کمزوری مقتدر طبقات کا زمینی حقائق سے دور رہنا ہے اور اپنی ذاتی خواہشات کے حصول کے لیے اس حد تک جانا ہے کہ اپنے سمیت مسلم معاشروں کی بربادیوں کا موجب بنے۔ اگر حالات پر نظر ڈالیں گے اور گہرائی سے سوچنے کی کوشش کریں گے تو سمجھ آتی ہے کہ ہم ایک بار پھر تاریخ کی گہری کھائی میں گر رہے ہیں جہاں ہمیں کوئی مثبت مستقبل نہیں ملنے والا لہذا یہی وقت ہے کہ پوری ایمانداری سے حالات کو کنٹرول کریں اور دکھادیں کہ ہم موجودہ حالات سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب کی بار اخلاص بھی موجود ہے۔
نوٹ :یہ مضمون وی نیوز اردو پر 24 جولائی کو شائع ہوچکا ہے.