پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو ان کے اس بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان مسلم لیگ(ن) کے صرف سیاسی حریف نہیں بلکہ دشمن ہیں اور یہ کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان دشمنی اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں دونوں میں سے صرف ایک ہی زندہ رہ سکتا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا کہ آپ کوئی گینگ چلا رہے ہیں یا سیاست کر رہے ہیں؟، سپریم کورٹ مسلم لیگ(ن) کو سسیلین مافیا کہنے میں بالکل حق بجانب تھی۔
انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے بھی رانا ثنااللہ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے عدلیہ پر زور دیا کہ وہ پی ٹی آئی چیئرمین کو وزیر داخلہ کی ’براہ راست دھمکی‘ کا نوٹس لے۔
و اضح رہے کہ پی این این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ میرے خیال میں عمران خان جمہوریت اور جمہوری روایات پر یقین نہیں رکھتے، وہ اس ملک میں پرامن سیاسی ماحول پر یقین نہیں رکھتے اور سیاست کو دشمنی میں بدل دیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ ہم پہلے اسے اپنا سیاسی حریف سمجھتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ صورتحال اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ہم بھی سوچتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ جمہوری روایات، بروقت انتخابات اور صحیح و غلط جمہوریت اور سیاست کا حصہ ہیں لیکن دشمنی میں نہیں، عمران خان کہتا ہے کہ ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اگر وہ کہتا ہے کہ ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اگر ایسا ہے تو وہ ہمیں بھی قتل کرنا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یا تو انہیں یا ہمیں قتل کیا جائے گا، اب وہ ملک کی سیاست کو ایک ایسے موڑ پر لے گئے ہیں جہاں دو میں سے صرف ایک ہی رہ سکتا ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اگر ہمارے وجود کی نفی ہو گی تو میں کسی بھی حد تک جاؤں گا، انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں یہ سوچنا غیر متعلقہ ہو جائے گا کہ کیا کیا جا سکتا ہے یا کیا نہیں، کوئی چیز جمہوری ہے یا نہیں، آیا کوئی چیز اصولی ہے یا نہیں۔
جب پروگرام کے میزبان نے ان سے کہا کہ اس طرح کے بیان کے نتیجے میں انتشار پھیل سکتا ہے تو وزیر داخلہ نے کہا کہ انتشار پہلے ہی موجود ہے، انارکی کے علاوہ اور کیا ہے؟۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس صورتحال سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہے اور کیا عمران کی گرفتاری سے دشمنی میں کمی ہو سکتی ہے تو وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں، یا تو ان کی سیاست ختم ہو گی یا ہماری۔