شبانہ احمدی
دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے “جسٹس پارک” میں بے گھر افغان مہاجرین کا احتجاج تین ماہ بارہ دن سے جاری ہے۔ ویزا نہ ہونے کے باعث کرائے کے گھروں سے نکالے جانے والے یہ خاندان شدید سردی، سر چھپانے کی جگہ کی کمی اور محدود وسائل کے باوجود اپنے مطالبات کے لیے پُرامن دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
تین ماہ قبل اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں رہنے والے درجنوں افغان خاندانوں جن میں زیادہ تر خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں کو پاکستانی حکام کی جانب سے غیرقانونی افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد گھروں سے بے دخل کردیا گیا۔
ویزوں کی تجدید یا رہائشی اجازت نامہ نہ ملنے پر مالکان نے پولیس کے دباؤ میں ان سے مکان خالی کروالیے۔
گھر بار چھوڑنے کے بعد یہ خاندان جسٹس پارک میں جمع ہوگئے جہاں انہوں نے عارضی خیمے اور پلاسٹک کی پناہ گاہیں بنا کر رہنا شروع کردیا۔
تپتی دھوپ، مون سون کی بارشوں اور اب بڑھتی سردی میں وہ زیادہ تر انسانی ہمدردی کی امداد اور خیراتی تعاون پر انحصار کر رہے ہیں۔
احتجاج کرنے والوں میں احمد ضیا فیض ایک متحرک اور مؤثر رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ وہ مہاجرین کے مسائل کو پُرامن انداز میں منظم کرنے، میڈیا، سماجی کارکنوں اور بین الاقوامی اداروں سے رابطے برقرار رکھنے اور قانونی تحفظ کی کوششوں کے لیے جانے جاتے تھے۔
ساتھی مظاہرین کے مطابق فیض روزانہ کئی گھنٹے میڈیا نمائندوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سفارتی حلقوں سے رابطوں میں گزارتے تھے تاکہ افغان مہاجرین کی حالتِ زار دنیا تک پہنچائی جا سکے۔
ایک ہفتہ قبل مظاہرین نے الزام لگایا کہ گزشتہ رات پولیس نے ان کے دھرنے پر چھاپہ مار کر احمد ضیا فایض کو حراست میں لے لیا۔ اس کے بعد سے ان کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔
اہلِ خانہ اور ساتھی مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ متعدد تھانوں، امیگریشن دفاتر اور اسلام آباد میں افغان سفارتخانے تک گئے، لیکن کوئی ادارہ ان کی گرفتاری یا موجودگی کی تصدیق نہیں کرتا۔
ایک مظاہر نے بتایا:“ہم صرف انصاف چاہتے ہیں۔ احمد ضیا فیض ہماری آواز تھے۔ اب انہیں لے جایا گیا ہے، اور ہمیں نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ کوئی جواب دینے کو تیار نہیں۔”
فیض کی گمشدگی نے احتجاجی کیمپ میں خوف اور بے چینی کی نئی لہر دوڑا دی ہے اور مہاجرین کو اندیشہ ہے کہ مزید گرفتاریاں یا جبری ڈی پورٹیشن کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔
پاکستانی حکام کی جانب سے اب تک فیض کی گرفتاری یا گمشدگی پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔
دوسری جانب متعدد انسانی حقوق کے رہنما اور سول سوسائٹی کے کارکنان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ فیض کی حیثیت واضح کی جائے اور افغان مہاجرین کے بحران کو انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے۔
بین الاقوامی اداروں، خصوصاً اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR)، کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی بار UNHCR نمائندوں سے کیمپ کا دورہ کرنے کی اپیل کی، مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
شدید حالات کے باوجود افغان مہاجرین کی یہ کمیونٹی جسٹس پارک میں ڈٹی ہوئی ہے۔ ہر روز چھوٹے اجتماعات میں وہ انصاف کے نعرے لگاتے ہیں اور احمد ضیا فیض کی بحفاظت واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
خواتین اس احتجاج کی نمایاں قوت ہیں، جو اپنے بچوں کی سردی اور بھوک کے باوجود میدان میں موجود ہیں۔
ایک خاتون نے کہا“ہم نے اپنا گھر اور وطن کھو دیا۔ اب یہاں بھی محفوظ نہیں۔ فیض ہماری امید تھے۔ جب تک وہ نہیں مل جاتے، ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔”
پاکستان میں غیر دستاویزی افغان مہاجرین کی حالت تشویشناک ہوچکی ہے۔ سخت ڈی پورٹیشن پالیسی، بین الاقوامی خاموشی اور امدادی اداروں کی ناکافی توجہ نے ہزاروں خاندانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
احمد ضیا فیض کی گمشدگی اس وسیع تر انسانی بحران کی علامت بن چکی ہے۔ ایک ایسا بحران جو شفافیت، انسانی حقوق کے تحفظ اور عالمی یکجہتی کا مطالبہ کرتا ہے۔
سردیوں کی آمد کے ساتھ یہ احتجاج عالمی برادری کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ ہر مہاجر کے پیچھے ایک انسانی زندگی، ایک آواز اور ایک امید موجود ہے جسے سننے کی ضرورت ہے۔








