نثاربیٹنی
ضلع ٹانک اس وقت تمام تر بنیادی سہولیات، انفرسٹرکچر کی بہتری، انتظامیہ کی مضبوط رٹ اور صفائی سے محروم چلا آرہا ہے، ٹانک کو 90 کی دہائی کے ابتداء میں اس وقت کے پیپلزپارٹی کے وزیراعلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اپنے دورہ کے دوران ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے الگ کرکے تحصیل سے ضلع کا درجہ دیا تھا. آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے اسی دور حکومت میں شانگلہ، ہنگو اور ٹانک کو ایک ساتھ ضلع کا درجہ دیا گیا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ضلع شانگلہ اور ضلع ہنگو ٹانک سے ترقی میں کہیں زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں لیکن بدقسمت ضلع اپنے قیام کے تیس سال بعد آج بھی مسیحا کا انتظار کر رہا ہے.
ڈیرہ اسماعیل خان سے ٹانک میں داخل ہوں تو جب کھنڈرات، گندگی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں نظر آئیں تو سمجھ جائیں کہ آپ بدقسمت ضلع میں داخل ہوگئے ہیں، صدیوں قدیم شہر اپنے نمائندوں پر ماتم کرتا نظر آتا ہے، آثارقدیمہ کا منظر پیش کرنے والا شہر ٹانک کسی جنگجو کی مہم جوئی کے ظلم و جبر کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جو خصوصا” فتح کے بعد مفتوع شہروں کو تباہ و برباد کردیتے تھے.
ضلع ٹانک کی سڑکیں، گلیاں، ہسپتال، تعلیمی ادارے اپنے موجودہ و سابقہ نمائندوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ثبت کیے ہوئے ہیں، شہر میں نکاسی آب کے مسائل انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں، آبادی بڑھنے کے باوجود کسی بھی قسم کی انتظامی درستگی نظر نہیں آتی، ٹانک شہر نکاسی آب کا نظام نا ہونے کی وجہ سے دلدل میں تبدیل ہوچکا ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ ان نکاسی آب کے گندے نالوں میں شہر کو سپلائی کیے جانے والے پانی کی پائپ لائنیں گزرتی ہیں جہاں سے لیکج کے باعث ان گندے نالوں کا آلودہ اور زہریلا پانی ان پائپوں میں شامل ہوکر شہر کے مکینوں کے معدوں میں جاتا ہے جو معتدی اور خطرناک بیماریوں کا سبب بن رہا ہے.
ٹانک میں ترقیاتی کاموں کا دعوی کرنے والے سابقہ اور موجودہ عوامی نمائندے اس طرح کی باتیں کرکے دراصل ٹانک کی عوام کا مذاق اڑاتے ہیں، شہر اس وقت لاقانونیت کی لپیٹ میں ہونے کیساتھ ساتھ معیاری تعلیمی اداروں کی عدم دستیابی، صحت کی ناکافی سہولیات، انفراسٹرکچر کی زبوں حالی، کرپشن، منشیات کی لت اور اقرباء پروری جیسے مسائل کا شکار ہے، ٹانک کے شہری، بجلی کی بہتر ترسیل،، آمدورفت کی بہتر سہولیات، پختہ گلیوں، گھروں تک قابل رسائی صاف پانی اور صحت کی سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں، ڈی ایچ کیو ٹانک ضلع ٹانک اور اس کے اطراف کی عوام کی صحت کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے جب کہ صحت اور تعلیم سمیت دیگر محکموں میں ہونے والی بے ضابطگیوں، میرٹ کی دھجیاں، جرائم میں اضافہ، انتظامیہ کی ڈھیلی گرفت، رشوت، اور اپنوں کو نوازنے کی پالیسی نے ان کے مسائل میں دو گنا اضافہ کر دیا ہے.
یہاں سے منتخب ہونے والے تمام عوامی نمائندے یوں تو ٹانک کی ترقی کے دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن ان نمائندوں نے عملی طور پر ٹانک کے لیے وہ کام نہیں کیے جو کسی بھی ضلع کے لیے ضروری ہوتے ہیں،دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ ایم این اے اور سابقہ ایم پی اے ٹانک میں رہائش اختیار کرنا بھی گوارہ نہیں بلکہ یہ سلسلہ 75 سال سے جاری ہے اور ایک ادھ ایم این اے یا ایم پی اے کو چھوڑ کر باقی سب ڈیرہ اسماعیل خان رہائش پذیر ہوتے تھے اور مہمانوں کی طرح ٹانک میں قدم رنجا فرماتے، چند ارشادات فرماکر چلتے بنتے.
الگ ایم این اے اور الگ ایم پی اے رکھنے کے باوجود ٹانک اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ہاتھوں برباد ہوتا آیا ہے اور ضلع بننے کے بعد مزید برباد ہوگیا ہے، یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ ضلع کی سطح کا کوئی بھی کام ٹانک میں نظر نہیں آئے گا، تقریبا ہر سرکاری محکمے میں رشوت ستانی کا دور دورہ ہے، عوام کے حل طلب مسائل سالوں سے مختلف محکموں کے دفاتر کی الماریوں میں گردآلود پڑے ہیں، انتظامیہ شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے، ذخیرواندوزوں کو لگام ڈالنے، قانون کی رٹ قائم رکھنے اور شہر کو صاف ستھرا رکھنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، ٹانک شہر کی عوام آج بھی دور قدیم کی طرح انتہائی نامساعد حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، گلی گلی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پڑے ہیں، شہر کے اکثریتی علاقوں میں نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے گلیاں اور خالی پلاٹ گندے پانی سے بھرے ہوئے ہیں، بجلی کے آنے اور جانے کے کوئی اوقات مقرر نہیں، واپڈہ کا جب دل چاہے بجلی بند کردیتے ہیں، شہر میں معیاری اور بامقصد تعلیمی مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے شہر کے اکثریتی طلباء و طالبات تعلیم کے حصول کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کا رخ کررہے ہیں.
ضلع ٹانک سے کامیاب ہونے والے سابقہ اور موجودہ عوامی نمائندوں کی کارکردگی پر یہ سب سوالیہ نشان ہیں، اگرچہ یہ اس سوالیہ نشان کو مٹانے کی لاکھ کوشش کریں پھر بھی نہیں مٹاسکتے،، یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ٹانک کی تمام تر محرومیوں کے ذمہ دار یہاں کے منتخب نمائندے، سفارشی بیوروکریٹس، نام نہاد سماجی شخصیات، عوامی نمائندوں کے چہتے ٹھیکیدار(جن میں اکثریت کرپٹ ہیں) اور چاپلوس سیاسی ورکر ہیں جنہوں نے ہر بار اس خوبصورت اور تاریخی شہر کا استحصال کیا.
اب جبکہ اگلے انتخابات کی آمد آمد ہے اگر ٹانک کے باسیوں نے اپنے معیار زندگی کو تبدیل کرنا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دینا ہے تو ان کو پیسے کی چمک، برادری ازم، رشتے داری اور تعلقات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر عوامی نمائندوں کو منتخب کرنا ہوگا بصورت دیگر پچھتر سال سے کسمپرسی کی حالت میں رہنے والے ضلع ٹانک کے باسی اگلے پچھتر سال بھی ان محرومیوں اور زیادتیوں کا شکار رہیں گے.