استنبول مذاکرات: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاحال معاہدہ نہ ہوسکا

انقرہ : پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ میں جاری مذاکرات تیسرے روز بھی کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔

بات چیت کے دوران امید اور مایوسی کا ملا جلا ماحول رہا کیونکہ دونوں ممالک سرحد پار دہشت گردی کے تدارک کے طریقۂ کار پر اختلافات ختم کرنے میں ناکام دکھائی دیے۔

دیر رات تک دونوں وفود کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا، تاہم حکام کا کہنا تھا کہ کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ابھی وقت لگ سکتا ہے۔

اجلاس سے باخبر ذرائع نے انگریزی اخبار ڈان کو بتایا کہ بیشتر نکات پر اتفاقِ رائے ہو چکا ہےلیکن افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق اقدامات کے معاملے پر اختلاف برقرار ہے۔

ایک ذریعے نے بتایا، “ہمیں توقع تھی کہ مذاکرات کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا مگر یہ مقصد تاحال پورا نہیں ہو سکا۔ البتہ ہم اب بھی پرامید ہیں۔”

دن کے آغاز میں مذاکراتی ماحول مثبت قرار دیا جا رہا تھا اور شرکا دونوں وفود کی جانب سے “حوصلہ افزا پیش رفت” اور “سنجیدہ رویے” کی تعریف کر رہے تھے۔ مگر جیسے جیسے بات چیت شام تک طول پکڑتی گئی یہ فضا مایوسی میں بدلنے لگی۔ ایک ذریعے نے اعتراف کیا، “یہ مرحلہ واقعی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔”

ذرائع کے مطابق افغان طالبان کا وفد کسی تحریری معاہدے پر رضامند نہیں خصوصاً اس شق پر کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حمایت ختم کرنے سے متعلق قابلِ تصدیق یقین دہانیاں فراہم کرے۔

ایک پاکستانی عہدیدار نے کہا انگریزی اخبار ڈان کو بتایا کہ ترکیہ کے میزبان ہمارے خدشات سے آگاہ ہیں، لیکن کابل اور قندھار کی قیادت کسی وعدے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہی۔”

یہ رویہ پاکستانی وفد کے لیے مایوسی کا باعث ہے۔ ایک سیکیورٹی اہلکار نے واضح کیا کہ “پاکستان کا مؤقف ابتدا سے ایک ہی ہے: افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، اور طالبان کو ٹی ٹی پی کی سرپرستی ختم کرنا ہوگی۔”

ذرائع نے اشارہ دیا کہ اگرچہ “کچھ بیرونی عوامل” (بالواسطہ طور پر بھارت کی طرف اشارہ) عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں، تاہم پاکستان اور ثالثی کرنے والے ممالک، خصوصاً ترکیہ اور قطر، مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔

اتوار کے مقابلے میں پیر کے روز ماحول نسبتاً بہتر تھا۔ پاکستانی وفد نے اپنے “آخری مؤقف” سے طالبان وفد کو آگاہ کیا، جسے کچھ مبصرین نے مذاکرات کے اختتامی مرحلے کی علامت سمجھا۔

دوسری جانب افغان ٹیم کے ارکان نے استنبول میں ہونے والی بات چیت کے نتیجہ خیز ہونے کی امید ظاہر کی۔ ایک افغان نمائندے نے کہا، “ہم واضح کر چکے ہیں کہ کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔ امید ہے کہ یہ مذاکرات مثبت سمت میں جائیں گے۔”

ترکیہ اور قطر کے ثالثوں نے بھی فریقین پر زور دیا کہ رابطے کا سلسلہ برقرار رکھیں اور عمل کو ناکامی سے بچائیں۔

اگرچہ کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہ ہو سکا، لیکن سفارتی ماہرین کے مطابق تین روز تک مسلسل مصروف مذاکرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ دونوں ممالک بات چیت کے تسلسل کے خواہاں ہیں۔

رات گئے استنبول میں یہ مشاورت جاری تھی کہ آیا مذاکرات کو چوتھے روز تک بڑھایا جائے یا نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں