اسلام آباد : سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ بتایا جائے ہم دہشت گردوں سے کس کے کہنے پر مذاکرات کر رہے ہیں ؟ حکومت ججوں، بیوروکریٹس اور فوجی افسران کو کاریں دینا بند کردے.
انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے بچیوں کے ایک ہزار سکول پر حملہ کیا،سوات میں بچیوں کے جس سکول پر حملہ ہوا وہ پانچ سال تک بند رہا، ہم انھیں دہشتگردوں سے مذاکرات کر رہے ہیں،ہم ان دہشت گردوں سے کس کے کہنے پر اور کیا مذاکرات کر رہے ہیں،دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے کی کس نے آفر دی.
انہوں نے کہا کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے ہمیں دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے خود عملی اقدامات کرنے ہونگے،غریب تو اپنا حصہ ڈال رہا ہے وہ پیدل چلتا ہے،غریب آدمی سائیکل پر سفر کرتا ہے،مغرب نے آج کہا ہے کہ پیدل چلیں، سائیکل استعمال کریں یا پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں.
انہوںنے کہا کہ پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ججوں، بیوروکریٹس اور فوجی افسران کو کاریں دینا بند کردیں،وہ پیسہ سائیکل کے راستوں، پیدل چلنے کے راستوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر خرچ کیا جائے۔
انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سےجسٹس اعجاز الاحسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت معاشی معاملات میں سہولت دے سکتی ہے رکاوٹ نہیں بن سکتی،تنازعات کے حل کے متبادل نظام کیلئے قانون سازی ضروری ہے،قانون میں خلاء ہو تو عدالتوں کیلئے کام کرنا ممکن نہیں ہوتا،سی پیک اور توانائی سمیت متعدد شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کار کے مواقع موجود ہیں،تنازعات کے حل کا متبادل نظام سرمایہ کاروں کیلئے سہولت کا باعث ہوگا،متبادل نظام سے کاروباری تنازعات عدالت کی نسبت جلد حل ہوسکتے ہیں،بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں میں ثالثی کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے قانون بن چکے ہیں،کے پی میں معمولی نوعیت کے فوجداری مقدمات بھی ثالثی نظام کے ذریعے حل ہو رہے،عوام کو عدالتوں میں آنے کے بجائے ثالثی کے نظام سے رجوع کرنے کی آگاہی دی جانی چاہیے،وکلاء سائلین کو غیر سنجیدہ مقدمات عدالت لانے کے بجائے ثالثی کے متبادل نظام کا مشورہ دیں،عدالتوں میں غیر ضروری مقدمات ہونے کی وجہ سے کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے.