سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بل کی بیشتر شقیں کالعدم قرار دے دی ہیں جس کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت متعدد سیاست دانوں کے کیسز بحال ہو گئے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے جمعے کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست پر نیب ترامیم بل کا محفوظ شدہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا۔
تین رُکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ جو مقدمات اس ترمیم کی منظوری سے قبل نیب میں چل رہے تھے انہیں سات روز میں دوبارہ شروع کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کالعدم قرار دی گئی شقوں کے تحت نیب کو کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال ہوں گے۔ تاہم آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی۔
سپریم کورٹ نے پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دی ہے۔ اعلیٰ عدالت نے احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے کرپشن مقدمات میں بار ثبوت ملزم پر ڈالنے کے بجائے نیب پر ڈالنے کی شق بھی کالعدم قرار دے دی ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد کن سیاست دانوں کے کیسز بحال ہوں گے؟
نیب ترامیم کالعدم ہونے سے سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شہباز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کیسز بحال ہوں گے۔
اس کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف پنک ریزیڈنسی ریفرنس بھی بحال ہوگا جب کہ سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس اور سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین کے خلاف ریفرنس بھی بحال ہو گیا ہے۔
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کی بنا پر نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ، سابق وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف اور اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید اور انور مجید کے مقدمات بھی دوبارہ بحال ہوں گے۔
نیب ترامیم کے تحت حراست میں لیے گئے کسی بھی شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرنے کا پابند تھا۔ نیب ترامیم کے تحت کئی کیسز دیگر عدالتوں کو منتقل بھی کر دیے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب یہ سارا عمل رک جائے گا۔
نیب ترامیم میں کسی بھی ملزم کے خلاف ریفرنس یا کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی اس کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نیب کو گرفتاری سے قبل ثبوت کی دستیابی یقینی بنانا تھی۔
منظور کیے گئے بل میں ملزم کے اپیل کے حق کے لیے مدت میں بھی اضافہ کر دیا گیا تھا۔ پہلے ملزم کسی بھی کیس میں 10 دن میں اپیل دائر کر سکتا تھا جب کہ اب اس کو 30 دن کی مہلت دی گئی تھی۔ اب کوئی بھی ملزم اپنے خلاف دائر کیس پر ایک ماہ میں اپیل دائر کر سکے گا۔
جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں۔ لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔
تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا۔ چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا۔ بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی چار سال کی مدت بھی کم کر کے تین سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا۔ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔
بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے تین سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
گزشتہ برس چھبیس جون کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔