جنوبی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنما علی وزیرنے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع میں بڑےفوجی اپریشنز کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سوشل میڈیا پر نشرہونے والی ایک انٹرویو میں علی وزیرکا کہنا تھاکہ میں علاقے کے دورے پر تھا جب مجھے میڈیا کے زریعے معلوم ہوا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہان نے شرکت کی ہے اور اس میں ٹارگٹیڈ اپریشن کی اجازت دی گئی تھی،نا میں اس اجلاس میں شریک ہوا نا ہی مجھے دعوت دی گئی۔انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی سے متعلق ان کیمرہ اجلاس میں بھی مجھے کھبی دعوت نہیں دی گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اپریشنز کے خلاف میں نے پارلیمنٹ کے فلور پر اور پھر ٹیوٹر کے زریعے مخالفت کی ہے۔انہوں نے کہاکہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا قبائلی اضلاع میں بڑے اپریشن کا فیصلہ نہایت غلط تھا،اب وہ حالات نہیں رہے ہیں لوگوں میں خوف ختم ہوچکا ہے،نہ ہی ریاست اور نہ ہی عسکری اداروں میں اتنی قوت باقی ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر اپریشن کرسکیں۔
علی وزیرکا کہنا تھاکہ میں لوگوں سے ملا ہوں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ قبائلی علاقے میں بڑے اپریشنز کے بہت منفی اثرات ہوں،ممکن ہی نہیں وہ بڑے اپریشن کرسکیں،لوگ نہ صرف مزاحمت کریں گے بلکہ جب اپریشن شروع کریں گے تو لوگ ان کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ 2018 کے الیکشن کے بعد عمران خان اورعمران کی ٹیم ہمارے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے،اس وقت انہوں نے وزارتوں،پیسوں کی اور فنڈز کی پیشکش کی لیکن ہم ان کے سامنے ایک فہرست رکھ لیتے تھے جس میں ہم علاقے کی سیکیورٹی کی صورتحال واضح کرتے تھےجس میں سیکیورٹی کے نام پر مزید اپریشنز نہ کرنا،سیکیورٹی کے نام پر لوگوں کی تضحیک بند کرنا،علاقےمیں خوف وحراس پھیلانا بند کرنا ،اس علاقے جو لوگ بے گھر ہوئے ہیں ان کی باعزت گھروں تک واپسی اور ان کے نقصانات کا ازالہ کرنا جیسے مطالبات رکھ لیتے تھے۔
علی وزیرکا کہنا تھا کہ ہماری شرائط سننے کے بعد عمران خان اور ان کے دوست کہتے تھے کہ فوج سے بات کرتے ہیں جنہوں نے یہ اپریشنز کئے ہیں اور آپ کے شرائط ان کے سامنے رکھتے ہیں اور پھر وہ فوج سے وہ شرائط منوانے میں ناکام ہوجاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے وقت جب میر پروڈکشن ارڈر جاری ہوئے تو مجھے ایک دن پہلے لایا گیا،اجلاس کے دوران نہ میں اپوزیشن کے پاس گیا اور نہ ہی حکومتی بینچوں پر بیٹھے لوگوں سے کے پاس گیا۔
علی وزیرنے بتایاکہ میرے پاس مسلم لیگ ن کے رہنما آئے ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی تھے اور انہوں نے شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کی بات کی،پھر ہم نے باقاعدہ اس پر بات چیت کی جس میں تمام پارلیمانی لیڈران تھے ، خالد مقبول صدیقی، اختر مینگل، وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری اور اسد محمود بھی بیٹھے تھے،میں نے شہباز شریف سے کہا کہ مجھے ذاتی طور پر کوئی لالچ نہیں ہے نہ ہی میں اپنے کیسز ختم کرنے کا کہوں گا اور نہ ہی ایسے شرائط رکھوں گا جو مفادات سے بھرے ہوں، میں نے ان سے کہا کہ اگر میں ووٹ دوں گا تو آپ کو میرے ساتھ وعدہ کرنا ہوگا کہ جو پالیسی ہے اسے تبدیل کیا جائیگا،انہوں نے کہاکہ مہاجروں کا بھی یہی مسئلہ ہے بلوچوں کا بھی یہی مسئلہ ہے اور پشتونوں کا بھی یہی مسئل ہے،میری کسی سے بات ہوئی ہے میں یہ مسئلہ ختم کروں گا،اس کے علاوہ اتحادی حکومت کو ووٹ دینے کےلئے میں نے نظریاتی دوستوں سے بھی مشورا کیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ اجلاس کے دوران میں نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب تک ان جرنیلوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا جو طالبان سے معاہدے کررہےہیں جو طالبان کو علاقے میں لاتے ہیں،جب تک جنرل فیض اور ان کے دوستوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا تب تک میں ٹارگٹیڈ اپریشن کی اجازت بھی نہیں دیتا،ان جرنلیوں کو گرفتار کیا جائیگا جنہوں نے یہ ماحول بنایا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ٹارگیٹ اپریشنز کے حوالے سے بھی واضح کرنا ہوگا ایسا نہ ہو یہاں اسلام آباد میں ٹارگیٹ اپریشنزکی اجازت لیں اور وہاں پورے علاقے خالی کرنے کی بات کریں،بطور وزیرستانی اہم نمائندے کے میں بتارہاہوں کہ وہ علاقے میں بڑے اپریشنز نہیں کرسکتے ہیں اگر ہوئے بھی تو اس کے انتہائی منفی نتائج سامنے آئیں گے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
علی وزیرکا کہنا تھا کہ میں پیسوں یا اقتدار کا بھوکا نہیں ہوں،عوامی بندہ ہوں اور بہت سخت حالات میں بھی اپنے نظریات سے پیچھے نہیں ہٹا اب تو بہت نارمل حالات ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں علی وزیر کا کہنا تھاکہ ریاست پہلے بہت طاقتور تھی اور فوج کے پاس بھی بہت طاقت تھی اس کے علاوہ بین القوامی طاقتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی تھی،اس وقت ہمارے ہاں لوگوں میں اتفاق نہیں تھا،عوام کوحالات کا ادراک نہیں تھا،عوام نے ایسے واقعات نہیں دیکھے تھے جس کی بنیاد جھوٹ پرہو جیسے آج کل جو واقعات ہوتے ہیں جھوٹ کی بنیاد پر پھر ایک جھوٹ کو چھپانے کےلئے 10 واقعات اور رونما کئے جاتے ہیں ۔عوام جان چکی ہے کے علاقے میں اپریشن کا مقصد علاقے سے شرپسندوں کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ لوگوں تکیف دینا اور جن لوگوں کے نام پر اپریشن کررہے ہیں ان کو تحفظ فراہم کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہا علاقہ خالی کروا کر اپریشن کرنے کا کیا ہے مطلب ہے ،خالی گھروں کا کیا کریں گے،کیا وہ پہلے کی طرح گھروں کو لوٹنا چاہتےہیں جس طرح پہلے لوٹ لیا تھا،نقصان ہوگا تو عام لوگوں کا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بڑے اپریشنز ممکن نہیں،میں اس قوم کا بیٹاہوں،قوم کو اپریشنز سے سخت نفرت ہے، مجھے پتہ ہے جو میں نے محسوس کیا ہے وہ نہ سیاسی لیڈران محسوس کرسکتے ہیں نہ دیگر اقوام یہ محسوس کرسکتے ہیں اور نہ ہی جی ایچ کیو میں بیٹھے جرنیل محسوس کرسکتےہیں۔