دہشت گردی کے سائے تلے خیبرپختونخوا

فریال خلیل
خدائے امن جو کہتا ہے خود کو
زمیں پر خود ہی مقتل لکھ رہا ہے

خیبرپختونخوا پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے جو جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل رہاہے لیکن بدقسمتی سے پچھلے دو ہائیوں سے یہ خوبصورت صوبہ دہشت گردی جیسے خطرناک مسئلے کا شکار رہا ہے ،کوئی بھی ضلع یا حصہ دہشت گردی سے بچ سکا .

دہشتگردی کا مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے، ہر طرف افراتفری ، بے چینی ، قتل وغارت ، حملے اور دھماکے ھورہے ہیں ۔ نوجوانوں کے خون کی ندیاں بہے رہی ھے بےگناہ قتل کیے جارہے ہیں یعنی دہشت گردوں کے حملوں، دھماکوں اور انکے خلاف کارروائیوں میں معصوم لوگ بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جنھوں نے نہ کوئی جرم، لڑائی، قتل اور نہ کسی کا کوئی نقصان کیا ہوتا ہے لیکن دہشت گردوں کے تشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی وجہ سے کئی افسوس ناک واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں،سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں 49 پولیس اہلکار شہید ہوئے جبکہ 69 زخمی ہوئے ،رپورٹ کے مطابق رواں سال صوبے میں 80 عام شہری بھی نشانہ بنے ہیں اور 213 زخمی ہوئے۔

دہشت گردی کی وجہ سے نقصانات

1 معاشی نقصان
وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس میں کہا کہ 80 ہزار سے زیادہ پاکستانی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں جبکہ 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ ان نقصانات میں زیادہ تر خیبر پختونخوا کے حصے آتے ہیں جو افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ھے۔ سرحدی علاقوں میں مکانات ، سرکاری املاک، سکول وغیرہ اور کاروبار کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ھے اور ان نقصانات کا ازالہ ابھی تک نہ ھو سکا۔

دہشت گردی اور انکے خلاف جنگ کا محور سرحدی یعنی قبائلی اضلاع رہے ہیں اس لئے یہاں نقصانات زیادہ ھوئے ہیں۔ جب کہیں پر کسی علاقے میں حملے یا دھماکے ہوتے ہیں تو اس کا اثر لوگوں کے کاروبار پر بھی پڑتا ہے ،ان دھماکوں کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار بند ہوجاتے ہیں۔ آج کل جنوبی اضلاع ( وزیرستان، ٹانک ، ڈیراسماعیل خان، لکی ، بنوں کرک) میں دہشت گردوں کے کاروائیوں میں اضافہ ھوا ہے۔ ٹانک اور دیگر اضلاع سے لوگ نکل مکانی کر رہے ہیں ضلع ٹانک اور تحصیل کلاچی سے عدالتی عملہ سمیت کئی دفاتر ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوچکے ہیں، ٹانک کو خیر آباد کہہ چکے ہیں جبکہ جنوبی وزیرستان تو پہلے سے ریموٹ کنٹرول پر چل رہا ہے.

عوامی اور سیاسی پریشر پر چند دن کے لئے ضلعی انتظامیہ اپر وزیرستان منتقل ہوا لیکن وہاں کی قدرتی خوبصورتی اور سرد ہوائیں راس نہ آئیں یوں ایک ڈرون حملے ( مبینہ طور پر ) کے بعد واپس ٹانک کا رخ کیا۔ ضلعی انتظامیہ، تعلیم، زراعت، صحت سمیت تمام عملہ جنوبی وزیرستان اپر کو دوسرے اضلاع سے چلا رہے ہیں .

اس کے علاوہ بہت سے لوگ اپنے گھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے ،ٹانک کے دیہی علاقے، جیسے اماخیل، ملازئی ، ڈابرا وغیرہ میں دہشت گردوں کی موجودگی اور انکی بے جا ظلم و جبر کی وجہ سے کافی زیادہ لوگ نقل مکانی کر کے دوسرے محفوظ علاقوں میں چلے گئے ہیں

2 جانی نقصان

دہشت گردی کے حملوں میں بہت سے معصوم لوگ بچے پولیس والے اور فوجی شہید ہوچکے ہیں، خیبرپختونخوا میں رواں سال پولیس پر 68 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 26 پولیس اہلکار شہید جبکہ 30زخمی ہو چکے ہیں

3 تعلیم کا نقصان

تعلیمی اداروں پر شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچوں نے سکول جانا ہی چھوڑ دیا ،پشاور میں آرمی پبلک سکول 2014 کا واقعہ اور باچا خان یونیورسٹی کے واقعے نے والدین بچوں کو سکول بھیجنے سے خوفزدہ ہیں لیکن تعلیم جیسے بنیادی حق سے ان کو محروم نہیں کرسکتے ۔ گزشتہ دنوں جنوبی وزیرستان، مکین کے علاقے میں سکول پر ہونے والے ڈرون حملہ ( جسمیں 6 بچے زخمی ھوئے) بچوں کے حوالے سے والدین کی پریشانی میں اضافہ کیا ھے۔خیال رہے کہ دہشتگردی نے بچوں سمیت بہت سارے اساتذہ کی بھی جانیں لی ( شہید ھوئے) ہیں۔

دہشت گردی نے لڑکیوں کے تعلیم کو بھی بہت متاثر کیا، قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کا تعلیمی اداروں میں داخلہ پہلے ہی محدود تھا ،تاہم دہشتگردی سے خوفزدہ ماحول نے اس دباؤ کو مزید بڑھایا۔ یوں معاشرے کے اہم کردار یعنی خواتین تعلیم سے محروم ھوتی جا رہی ھے۔

4 بے چینی اور خوف

دہشت گردوں کی روزمرہ حملوں اور عوام کا حراساں کرنے سے لوگوں میں ایک خوف پھیلا ہوا ہے خاص طور پر سرکاری ملازمین کے گھروں میں خصوصی طورپر پولیس اہلکار اور سیکیورٹی اہلکار خوف اور دہشت کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے کیوں کے باہر نکلتے ہی قتل کردیے جاتے ہیں۔ سر شام لوگ گھروں تک محدود ھو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کو جانی اور مالی دونوں طرح کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ھوتا ہیں۔ موبائل و موٹر سائیکل چھیننا، اغواء برائے تاوان، یا جان سے ہاتھ دھونے کے واقعات میں روز بروز اضافہ ھوتا آرہا ھے۔ یہ خطرات صرف گاؤں یا اس جگہ تک محدود نہیں جہاں دہشتگرد گروہوں کا وجود ھے بلکہ شہر اور شاہراہوں پر ایسے واقعات معمول بن گیا ھے۔ لوگوں کے دلوں میں اسطرح واقعات کی وجہ سے ایک خوف بیٹھ گیا ہے اور ہر وقت بے چینی اور خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں کچھ برا نہ ہوجائے۔ ان حالات میں محافظ ( پولیس، ایف سی، آرمی) خود بھی محدود نقل و حرکت کرتی ھے۔ شام ھوتے ہی چوکیوں کے چراغ بجھ جاتے ہیں یعنی پولیس کی چھٹی ھو جاتی ھے عوام اللہ کے حوالے ۔

اس بڑھتی ھوئی بدامنی اور انتشار میں حکومت بظاہر پھرتی کا مظاہرہ کرتی ھے اور کئی اہم اقدامات بھی اٹھائی ہیں۔دہشت گردی کے روک تھام کیلئے حکومت وقتاً فوقتاً اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے لیکن کوئی ایک حکمت عملی مکمل کامیاب نہیں رہی۔ جبکہ گزشتہ دو سالوں سے ایک دفعہ پھر دہشتگردی میں اضافہ آیا ھے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت کی چند اہم اقدامات میں کرفیو کا نفاذ، چیک پوسٹوں میں اضافہ، انٹلیجنس کے بنیاد پر کارروائیاں اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ھے۔

جہاں صوبے کے بعض علاقوں میں کرفیو کیا جاتا ہے وہیں جنوبی اضلاع کے بعض علاقوں میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر انٹلیجنس کے بنیاد پر آپریشن بھی کیے جارہے ہیں افغانستان کے سرحدی اضلاع ٹانک، جنوبی وزیرستان، ڈیرااسماعیل خان جیسے علاقوں میں کرفیو سمیت دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی کیے جارہے ہیں .رواں سال دہشت گردوں کے خلاف 2 ہزار 981 آپریشن کیے گئے جن میں 739 دہشت گردوں کو گرفتار اور 246 کو ہلاک کیا گیا۔

1 چیک پوسٹوں کا قیام

اہم راستوں، شاہراہوں اور علاقوں میں چیک پوسٹیں بنائی گئی تاکہ مشکوک افراد کو روکا جاسکے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ چیک پوسٹیں صرف دن کے وقت فعال نظر آتی ہیں جیسے ہی رات ہوتی ہے ان پر موجود اہلکار غائب ہوجاتے ہیں یا صرف رسمی طور پر موجود ہوتے ہیں ایسے میں عوام خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ ان چیک پوسٹوں کے بیچ دہشتگرد شاہراہوں پر نکل کر کاروائیاں بھی کرتی ھے۔ ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ کئی سرکاری اہلکار/ افسر بشمول جج، ایجوکیشن آفیسر اغواء ھوچکے ہیں۔ پولیس، ایف سی اور فوجی اہلکاروں کو تو خاص نشانہ بنایا جاتا ہے۔

2 جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

کیمروں اور ڈرونز کی مدد سے دہشت گردوں کو پکڑنے میں آسانی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ اسے ذاتی آزادی میں مداخلت سمجھتے ہیں کیونکہ ہر وقت نگرانی ہو رہی ہوتی ہے ،غلط شناخت یا غلط فہمی کی صورت میں بے گناہ افراد کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے دہشتگردی کی بیخ کنی ممکن ھے جبکہ اس کے درست استعمال سے گزشتہ دہائیوں کی طرح بڑے ملٹری آپریشنز کی ضرورت بھی نہیں رہ جاتی۔

خیبرپختونخوا نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں ہمیں ان قربانیوں کی قدر کرنی چاہیے اور امن کو قائم رکھنے کے لیے حکومت کو عوام کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی بڑھتی ہوئی دہشتگردی سے عوام کا اعتماد متزلزل نظر آتا ھے۔ عام ڈسکشن/ بحث میں عوام حکومتی کارروائیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے عوامی تعاون، سیاسی عزم، جامع قومی پالیسی کے علاؤہ تعلیم، اتحاد اور معاشی و معاشرتی اقدامات کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور آرمی اور پولیس اہلکاروں پر پختہ اعتماد رکھنا ہوگا اور بین الاقوامی برادری کو مل کر ان اہلکاروں کی مدد کرنی ہوگی ان شاہ اللہ ایک دن خیبرپختونخوا مکمل طور پر پرامن، ترقی یافتہ اور خوشحال ہوگا.

فریال خلیل گومل یونیورسٹی سب کمیپس ٹانک میں بی ایس اردو کی طالبہ ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں