محکمہ تعلیم خیبرپختوںخوا نے میٹرک امتحان میں بہترین کارکردگی والے سرکاری سکولوں کی حوصلہ افزائی اور ناقص نتائج کے حامل سکولوں کے خلاف انضباطی کاروائی کا فیصلہ کیا ہے.
محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری مراسلے کے مطابق بہترین کارکردگی والے سکولوں کی انتظامیہ اوراساتذہ کو نقد انعامات اور توصیفی اسناد دیئے جائینگے۔ نقد انعامات کے لئے ٹیچر اینیشیٹیو پروگرام کا 12 کروڑ 58 لاکھ روپے فنڈ استعمال میں لایا جائے گا۔اس سلسلے میں ابتدائی طور پر بورڈز میں پوزیشن حاصل کرنیوالے 274 سکولوں کی فہرستیں طلب کر لی گئی ہیں۔
مراسلے کے مطابق ناقص نتائج کے حامل سکولوں کے پرنسپلز اور اساتذہ کیخلاف انضباطی کارروائی بھی کی جائے گی۔
سکول آفیسرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا نے بہتر نتائج دکھانے پر حوصلہ افزائی اور ناقص کارکردگی دکھانے پر سکولز ذمہ داران کے خلاف کاروائی کو فیصلے کو مسترد کر دیا۔
سکولز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے عہدیداران کے مطابق محکمہ تعلیم کو خراب نتائج کے وجوہات کو بھی معلوم کرنا ہوگا۔
سکول آفیسرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر سمیع اللہ خلیل نےمقامی خبررساں ادارے ٹی این این کو بتایا کہ کہ محکمہ تعلیم اس طرح کے فیصلے کرنے سے قبل صوبے کے تمام سکولز پرنسپلز و دیگر ذمہ داران کو اعتماد میں لیں۔ صوبے کے تمام تعلیمی بورڈز کی سطح پر پہلے سے قائم ایک کمیٹی اس پر کام کر رہی ہے کہ سکولوں کی سطح پر نتائج کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اساتذہ تنظیم نے وہاں اپنے تجاویز دے رکھی ہیں۔
اںہوں نے کہاکہ خیبر پختونخوا کی محکمہ تعلیم کو علم میں ہونا چاہئیے کہ جہاں یہ حکومتی فارمولہ کہ جیسے بھی ہو تعلیمی شرح کو بڑھایا جائے یعنی کوالٹی کی بجائے کوانٹٹی پر ساری توجہ دی جائے تو وہاں مرضی کے نتائج کو دکھانا آسان کام نہیں۔
سمیع اللہ خلیل نے مزید کہا کہ حکومتی فارمولہ ہے کہ جماعت نہم اور گیارہویں میں اگر ایک طالبعلم فیل بھی ہو جائے تو اسکو اگلے کلاس میں پروموٹ کرنا ہے۔ ایسے میں وہ طالبعلم اگلے کلاس میں کیسے بہتر نتیجہ دیگا۔ یہ سلسلہ تب سے شروع ہوا جب سابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دوران کرونا وبا یہ اقدام اٹھایا تھا لہذا آج تک تعلیمی ادارے اس فیصلے کو بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ کسی بچے کو سبق آتا ہے یا نہیں سکولز انتظامیہ پر انکو داخلہ دینا لازم ہے۔ ہونا تو یہ چاہییے تھا کہ کسی بھی بچے کو سکول میں داخل ہونے سے قبل ان سے امتحانی ٹیسٹ لیا جاتا لیکن حکومت نے ایسا کرنے پر پابندی لگائی ہے۔ حکومت کا یہ فارمولہ کہ کوئی بچہ اگر سیکنڈ ٹائم میں محنت و مزدوری کرتا ہو بغیر کرائٹیریا کا انکو بھی داخلہ دیا جائے تو پھر اساتذہ پر بھی یہ لازم نہیں ہونا چاہئیے کہ خراب نتائج آنے کی صورت میں انکو سزا دی جائے۔
سمیع اللہ خلیل نے مزید بتایا کہ انہیں سکول کتابیں بروقت نہیں ملتیں جسکی وجہ سے بھی بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ جب تک سکول پڑھائی کو بہتر بنانے اور خاص کر انرولمنٹ کیلئے سکول پرنسپلز کو مکمل با اختیار نہیں بنایا جاتا تو ایسے میں نتائج کا رجحان یوں ہی رہے گا۔
صدر سکول آفیسرز ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت کو چاہئیے کہ صوبے کے سکولوں میں فوری طور پر 30 ہزار سے زائد اساتذہ کی کمی کو پورا کیا جائے۔ اگر کسی بھی سکول میں اعلی معیار کے انتظامات موجود ہوں اور نتیجہ نہ دے سکے اس صورت میں پھر کاروائی بن سکتی ہے۔ لہذا محکمہ تعلیم کو چاہئیے کہ فیصلے کرنے سے قبل انکو اعتماد میں لیں تاکہ بہتر طریقے سے فیصلے ہو کر نافذ العمل ہو۔