قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی عدالتی اصلاحات بل کثرت رائے سے منظور کرلیا،بل کے حق میں 60 جبکہ مخالفت میں 19 ووٹ ڈالے گئے۔ اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحاتی بل کی تحریک پیش کی اور بل کے حوالے سے تفصیلات بتائیں جس کے بعد بل کی شق واری منظوری دی گئی۔
اعظم نذیر تارڑ نے بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پارلیمان آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے اور قانون سازی کو ریگولیٹ کرسکتی ہے، آئین کے ساتھ ساتھ اس قانون کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز آف پروسیجر کے حوالے سے یہ بل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 191 کے تحت رولز بنائے جو 1980 میں بنائے گئے اور مختلف ادوار سے گزرے، گزشتہ دو دہائیوں سے سپریم کورٹ میں بالخصوص ایک نیا رجحان دیکھا کہ عدالت اتفاق رائے سے چلانے کے بجائے فرد واحد کے تحت آزاد ہوگئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے چیف جسٹس بھی آئے جنہوں نے سپریم کورٹ کے بنیادی حدود کو ایسے استعمال کیا کہ پورے پاکستان کے مختلف گوشوں سے اسٹیک ہولڈرز کے حوالے سے چاہے وہ بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنز ، پارلیمان، سول سوسائٹی، کاروباری طبقہ ہو یا سرکاری ملازمین سب کی طرف سے آوازیں اٹھیں کہ آئین میں ایک ترکیب دی گئی ہے کہ قانون سازی کا کام مقننہ ہے اور عدالتی امور فیصلے دے گی اور ملک چلانے کے لیے مشینری انتطامیہ کے تابع ہوگی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کہتا ہے آپ ایک دوسرے کی حدود میں غیرضروری مداخلت نہ کریں، پچھلے 15 یا 20 سال ایک نظر سے دیکھیں جب آئین کے آرٹیکل 184 تھری کا بے دریغ استعمال ہوا، بات بات کر انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے ایسے مقدمات پر ازخود نوٹس لیا گیا کہ لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں کہ آیا یہ آئینی اختیار ہی استعمال ہو رہا ہے، گلیوں کی صفائی سے لے کر ہستپال کی بیڈ شیٹس تک، جیلوں میں پکنے والے کھانوں سے لے کر اسکول جانے والے بچوں کے یونیفارم اور اساتذہ کی تعیناتیوں تک تمام معاملات تھے اس کے علاوہ اور کہانیاں بھی ہے، اربوں روپے سے بنایا گیا ہسپتال پی کے ایل آئی ایک چیف جسٹس کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا اور اب تک بحال نہ ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بارز نے بارہا مطالبہ کیا اور اس ایوان سے بھی ایک سے زائد دفعہ آوازیں اٹھیں کہ آئین کے آرٹیکل 106 کی حد اسٹرکچر کیا جائے اور اس میں اجتماعی سوچ نظر آنی چاہیے نہ کہ وہ کسی فرد واحد کا اختیار ہو کہ وہ کب از خود نوٹس لے یا کون سا کیس 184 تھری کے دائرہ کار میں آتا ہے یا نہیں آیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ بات بار ایسوسی ایشنز سے نکل کر عدل کے ایوانوں میں بھی گئی، وہاں سے اختلاف اس وقت بھی ہوا اور اس کے بعد بھی ہوا، از خود نوٹس کیسز نے ملک کو اربوں ڈالرز کے نقصانات بھی پہنچائے۔
انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں بھی کہا گیا کہ قانون سازی کا اگر آپ کو اختیار ہے تو آپ یہ معاملہ حل کیوں نہیں کرتے، وزارت قانون و انصاف کافی عرصے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کافی عرصے کام کر رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں جو بل متعارف کروایا گیا وہاں اسمبلی نے اس پر بحث کی اور آرا آنے کے بعد اس پر دو ترامیم بھی لی گئیں اور کل اس کو منظور کرلیا گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے بل کی تفصیلات بتائے کہ بینچوں کی تشکیل پر سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں آئیں اور اس حوالے سے ایک کمیٹی تجویز کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ تمام 17 جج برابر ہیں اور ادارے کو چلانے کے لیے اجتماعی سوچ ہی بنیاد رکھتی ہے اور اجتماعی سوچ ہی اداروں کو آگے لے کر چلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو پھر شخصیت مضبوط کرنے کے بجائے ادارہ مضبوط کریں تاکہ ادارہ ڈیلیور کرسکے اور قومی اسمبلی میں بحث کے بعد یہ بل منظور ہوا ہے۔
اس بل کے سیکشن دو کے تحت بینچز کی تشکیل اور مقدمات کی تقسیم کا اختیار تین جج استعمال کریں گے، جن میں چیف جسٹس، سینیارٹی میں دوسرے نمبر اور تیسرے نمبر پر موجود جج اس میں شامل ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی بینچز اور مقدمات کی تشکیل اور تقسیم کے فرائض انجام دے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں تلخ تجربات کیے کہ بیسویں مقدمات کے بارے میں یہ فیصلہ کہ آج لگنا ہے یا کل لگنا ہے یا عوام کی دلچسپی کا ہے اور اس طرح کے معاملات حل ہوجائیں گے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ بہت اہم قومی مقدمات ایک ایسے بینچ کے سامنے رکھا گیا جس میں 3 یا 5 جج صاحبان تھے حالانکہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ فل کورٹ اس مقدمے کو سنے۔
انہوں نے کہا کہ فل کورٹ رولز بناسکتی ہے لیکن شومئی قسمت کہیں کہ آخری فل کورٹ 2019 میں ہوئی، لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والے اس ادارے میں جس کو رول ماڈل ہونا چاہیے، وہاں بھی مشاورت نہیں ہے اور اتفاق رائے نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تجویز کیا گیا ہے کہ جب 184 تھری کے تحت بنیادی دائرہ اختیار میں درخواست دائر کی جاتی ہے یا سپریم کورٹ کسی معاملے پر ازخود نوٹس لینا چاہتا ہے تو پھر یہی تین سینئر ججوں کی کمیٹی جائزہ لے اور بینچ تشکیل دے اور تینوں جج اس بینچ کا حصہ ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی تشریح درکار ہو تو کم ازکم 5 جج صاحبان کا بینچ ہوگا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کا 10 اے 18 ویں ترمیم کے ذریعے متعارف کروایا گیا اور یہ اس وقت کی پارلیمان کے حوالے سے سنہرے حروف سے لکھا جائے گا، یہ شق شفاف ٹرائل یقینی بناتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے فیصلہ دیا کہ دین اور شریعت کہتی ہے کہ آپ کے خلاف کوئی فیصلہ ہوتو اس کے خلاف اپیل کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ آخری عدالت ہے، جو مقدمہ نہ سول کورٹ جاتا ہے، نہ ضلعی عدالت میں جاتا ہے اور نہ عدالت عالیہ میں جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو فریق کے درمیان کوئی معاملہ تصفیہ طلب ہے تو اس کو عوامی مفاد میں لا کر لوگوں کے ذاتی حقوق اور جائیدادوں کے حوالے سے کراچی میں ایک عمارت گرا دو اور اسلام آباد میں دو ٹاور بڑے قیمتی ہیں اس سے نہیں گراؤ تو یہ انصاف کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔
وزیرقانون نے کہا کہ اس طرح کی ناانصافیاں ختم کرنے کے لیے پارلیمان نے بارز اور وکلا کے مطالبے تھے اور ان ترامیم کے حوالے سے وکلا متفق ہیں جبکہ وہاں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن ان ترامیم کو دونوں طرف سے پذیرائی ملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہی کمیٹی بینچ بنائے گی جو لارجر ہوگا اور جو ناانصافیاں کی گئی ہیں اس کے لیے ایک موقع دیا گیا ہے اور جب یہ قانون بنے تو اس کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں وکیل کے انتخاب کا حق دیا گیا اور اپیل کا حق 188 کے تحت فراہم کیا گیا ہے، جو نظرثانی کی اپیل میں سپریم کورٹ رولز کے ذریعے قدغن ڈالی گئی کہ جس وکیل نے اپ کا مرکزی مقدمہ لڑا ہے وہی اپیل دائر کریں گے اور وہی کیس لڑیں گے تو اس پر قانون سازی کی گئی، جو دیرینہ مطالبہ تھا۔
وزیرقانون کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں درخواست دائر کرتےہیں تو اس کے ساتھ فوری سماعت کی درخواست لگاتے ہیں جو اسی دن یا اگلے دن مقرر کردیا جاتا لیکن سپریم کورٹ رولز میں اس پر کوئی موقع نہیں دیا گیا اور خلا موجود تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون کے تحت انہیں پابند کر رہے ہیں کہ فوری سماعت کے معاملات 14 روز سے آگے نہیں جائیں گے اور دو ہفتوں میں مقرر کرنا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ اس بل کے اغراض و مقاصد ہیں، نیک نیتی اور عوام کے بھلے کے لیے، 22 کروڑ لوگوں کے فائدے کے لیے اور پاکستان کی عدلیہ کے سب سے بڑے ادارے میں شخصی اجارہ داری کے بجائے اجتماعی سوچ کو مضبوط اور فروغ دینے کے لیے پیش کیا گیا اور مثبت سوچ کے ساتھ لے کر اس سے منظور کرلیا جائے۔
قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ عوام اور قانون کا نام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ نیک نیتی کے ساتھ اصلاحات کا بل ہے لیکن یہ اصلاحات کا نہیں بلکہ مفادات کا بل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ان کے سیاسی اور ان کے ذاتی مفادات کا بل ہے، اپنے مفادات کو بیچ میں رکھا اور اس پر اصلاحات کا کور چڑھا کر خوش نما بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی اصلیت اور اغراض و مقاصد یہ چھپا نہیں سکتے، اس ملک میں اقتدار پر بھی اشرافیہ قابض ہے، ان کے لیے آئین میں بھی صرف نظر ہو جاتا ہے اور ان کے لیے قوانین بھی بن جاتا ہے۔
شہزاد وسیم نے کہا کہ اشرافیہ چاہے تو ان کے لیے پانی پر بھی راستہ بن جاتا ہے اور عوام اس پانی میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ ان کی لاش بھی اوپر کی سطح تک نہین آتی۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک کی یہ حالت ہے، یہ قانون اور آئین ہے جس کو انہوں نے موم کی ناک بنایا ہے اور جہاں دل آتا ہے ادھر موڑتے ہیں اور اپنا مقصد نکالتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ 100 فیصد ذات سے متعلق قانون لے کر آ رہے ہیں، یہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہاں نیب قوانین بھی اسی طرح آئے تھے، ای وی ایم اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق بھی روندا تھا اور آج پھر اس ایوان پر ایک اور بلڈوزر پھیرنے جا رہے ہیں، نام عوام کا اور کام اپنا اور یہی اس بل کی حقیقت اور اصل چیز ہے۔
پی پی پی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ میں اس بات کو ماننے سے قاصر ہوں کہ اس بل کا تعلق آئین کے اندر 90 دن کے اندر الیکشن کی شق سے ہے، آئین میں ایک شق دی گئی ہے اس کا پورا ہونا لازم ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وکلا برادری کا پرانا مطالبہ رہا پھر بار ایسوسی ایشنز اور پھر بارکونسلز کا مطالبہ بنا، لاتعداد قراردادیں ہیں جس میں بار کونسلز نے مطالبہ کیا گیا کہ جو صورت حال سپریم کورٹ میں بالخصوص از خود نوٹس کی نسبت سے بن رہی ہے، اس پر نظر ثانی کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ جب کسی بھی معاشرے کے اندر ادارے آپس میں دست و گریباں ہونے لگے تو وہ پورے ملک اور ریاست کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہوتے ہیں۔
رضا ربانی نے کہا کہ ہم یہاں ایک چیز تو دیکھی ہے کہ پارلیمان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیرفعال کر دیا گیا، جو پچھلے چند دنوں سے سپریم کورٹ کے اندر جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے وہ نہایت تشویش ناک ہے، جو ریاست پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بار کونسلز اور عام آدمی کا مطالبہ تو پہلے سے تھا لیکن اب یہ سپریم کورٹ کے اندر سے بھی ازخود آیا ہے
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پارلیمان کے بجائے اپنے تنازعات عدلیہ کے پاس لے کر گئیں، جس کی وجہ سے عدلیہ پر دباؤ آیا کہ ان کو سیاسی تنازعات پر ملوث ہونا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو ثالثی کی بات ہو رہی ہے تو عدلیہ ثالث بن سکتی ہے، نہ تو آئین کے تحت کردار ہے اور نہ وہ بن سکتے ہیں، ثالث کے لیے پارلیمان، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکرکا کردار ہے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے کل منظور کر لیا تھا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی تھی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد صدر مملکت کو دستخط کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور اگر صدرمملکت اس پر رائے نہیں دے تو 10 روز کے اندر پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل از خود قانون بن جائے گا۔