اسلام آباد: فاٹا سے سابق رکن پارلیمنٹ اور سابق وفاقی وزیر حمید اللہ جان آفریدی نے وفاقی بجٹ 2025ءمیں قبائلی اضلاع کے تمام کارخانوں کی درآمد اشیاء اور فروخت کی فراہمی پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں قبائلی علاقوں کے صنعتکارواں اور کاروباری افراد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حمید اللہ آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں کوئی ٹیکس یا حکومتی پالیسی نافذ کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی تصور کیا جائے گا،قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کی تشویشناک صورتحال کے باعث پہلے سے ہی تمام کارخانے تباہی کے دہانے پر آنے کے بعد بند ہو چکے ہیں.
انہوں نے کہا کہ حکومت کے اس اقدام سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہونے کا خدشہ ہے،چار چانچ روپے ٹیکس وصولی کے بجائے پچاس ارب کا نقصان کرنے جا رہی ہے، ٹیکس نفاذسے مزید بے روزگاری اور مایوس کن صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے،ایف بی آر کے پاس قبائلی علاقوں میں موجودانڈسٹری کا ڈیتا ہی موجود نہیں ہے۔
حمید اللہ جان آفریدی نےکہا کہ انڈسٹری کو تحفظ کے لئے انڈسٹریل زون ، نا کارہ بجلی کی ترسیل کو موثر بنانے ، روڈ انفراسٹرکچر بنائے اور دہشت گردی کی صورتحال سے نمٹنے کے بجائے حکومت کی اس ٹیکس کے نفاذ کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائیگا۔
انکا مزید کہنا تھا کہ ملک میں غریب کو دبایا اور اشرافیہ کو نوازا جاتا ہے، حکومت ٹیکس کے نفاذ کو واپس لیتے ہوئے قبائلی اضلاع کو اپنے ترقیاتی حقوق فراہم کرے،حکومت دہشت گردی کی لپیٹ میں ان اضلاع کے امن امان کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے ۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ظالمانہ ٹیکس کی تجویز کو واپس نہ لینے کی صورت میں تمام تاجر برادری اور قبائلی اضلاع کے ہر کاروباری شعبے کے ساتھ مل کر حکومت کی اس ناجائز ٹیکس کے خلاف ہر فورم پر احتجاج اپنی آواز بلند کرینگے۔