نومنتخب ڈپٹی سپیکرخیبرپختونخوا اسمبلی ثریا بی بی نے کہا ہے کہ صوبےمیں ابھی بھی ایسے کئی علاقے موجود ہیں جہاں خواتین کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں اور انہیں ان کے حقوق نہیں ملتے۔
امریکی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ میں نے ایک سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گھر میں سیاسی موضوعات پر باتیں ہوتی رہتی تھیں اور میں شروع سے یہ باتیں سنتی رہی ہوں۔میرے والد مسلم لیگ کا حصہ تھے اور 16، 17 سال تک ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ جب میں نے موجودہ ملکی اور عالمی مسائل دیکھے اور سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں پر غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ موجودہ مسلم لیگ پرانی مسلم لیگ سے بہت مختلف ہے۔ اس وقت صرف عمران خان پاکستان کی درست نمائندگی کر رہے ہیں۔ عمران خان کے وژن کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔
ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران لوگوں تک پہنچنے میں ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چترال میں برف باری کے دوران انتخابی مہم کے لیے گھنٹوں تک پیدل چلنا پڑتا تھا۔ دور دراز کے علاقوں میں جا کر ہم نے لوگوں کو قائل کیا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں۔
انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے انتخابی مہم کے دوران ہمیں بہت سپورٹ کیا۔ ہم جہاں جاتے تھے لوگ ہمارے لیے آگ جلاتے تھے، ہمیں گرم پانی دیتے تھے اور ہمیں آگے جانے سے یہ کہتے ہوئے روک دیتے تھے کہ ہمارا پیغام آگے والے لوگوں تک وہ پہنچا دیں گے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود لوگ باہر نکلے اور ہمیں ووٹ دیا کیونکہ وہ اس نظام کو تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں نومنتخب ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی نے بتایا کہ ضلع اپر چترال اگرچہ نوزائیدہ ضلع ہے مگر خواتین کی شرح خواندگی کے اعتبار سے پورے صوبے میں دوسرے نمبر پر ہے۔
انہوں نے کہاکہ ضلع چترال میں خواتین کی شرح خواندگی 62 فیصد ہے۔ یہاں کی خواتین پولیس، نیوی اور دیگر قومی اور نجی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر اہم ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں۔ تاہم خواتین کے لیے صوبے میں انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے۔
ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ اگر پورے صوبے کی بات کی جائے تو اس میں ابھی بھی ایسے بہت سارے علاقے ہیں جہاں خواتین کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ملتی، انہیں ان کے حقوق نہیں ملتے۔
انہوںنے کہاکہ عوام نے ہمیں بھاری اکثریت سے منتخب کیا ہے تو اب میری کوشش ہو گی کہ آئین اور قانون کے مطابق خواتین کو جو حقوق ملنے چاہئیں وہ میں انہیں دلواؤں گی۔ میری سوچ ہے کہ میں خیبر پختونخوا کی خواتین کو بااختیار بناؤں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے میں اپنا پورا کردار ادا کروں گی۔