شہریار محسود
تحریر کے سامنے آنے تک راقم ایک ایسے علاقے میں ہوگا جو اس وقت اندھیروں میں ہے۔ امن کے حوالے سے،صحت کے حوالےسے، بنیادی سہولیات کے حوالے سے مگر فوری مسئلہ یہاں انٹرنیٹ سروس کی بندش کا ہے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ باقی اتنی اہم ضروریات کے بجائے انٹرنیٹ کی ضرورت کیوں؟ کیونکہ جو سہولیات پاکستان بننے سے لیکر اب تک نہ مل سکی وہ تو فوری ملنے سے رہیں۔
جنوبی وزیرستان کے دونوں ضلعوں اپر اور لوئیر میں انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ لوئیر وزیرستان میں البتہ 2جی کنیکشن ہے مگر نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ بمشکل کوئی مسیج ہی بھیجا جاسکتا ہے باقی ضروری کام جیسے آن لائن ایجوکیشن اتنے کمزور کنیکشن سے ممکن نہیں ہے۔ شمالی وزیرستان میں فورجی انٹرنیٹ سروس اب تک ہے ہی نہیں لیکن وہاں کم از کم کچھ علاقوں میں ڈی ایس ایل کنیکشن موجود ہے مگر پھر بھی اس وقت شمالی وزیرستان میں صرف تین فیصد لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔
آپ پورے فاٹا (کاغذوں میں سابقہ) کو باریکی سے دیکھیں گے تو اس وقت تمام اضلاع میں اگر ایک طرف دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تو وہی دوسری طرف آج کل کے جدید دور میں دنیا سے علیحدہ کرکے رکھا جارہا ہے اور اگر سنجیدگی سے اور بغیر کسی جذباتی احساسات کے سوچا جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا جان بوجھ کر ہی کیا جاسکتاہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو فرسودگی میں رکھ کر ہی آسودگی حاصل ہو سکتی ہے خدا کرے کہ میری سوچ غلط ہو لیکن اس وقت یہاں عام تاثر یہی ہے۔
مثال کے طور خیبر ایجنسی یا ضلع خیبر پشاور سے کتنے فاصلے پر ہے؟ اور پشاور خیبرپختونخوا کا دارالحکومت ہے تو پھر خیبر جیسے علاقے کو وہ سہولیات کیوں نہیں مل رہیں جو صوبے کے دیگر علاقوں میں مل رہی ہیں؟میں یہ نہیں کہہ رہا کہ صوبے کے دیگر علاقوں میں سب کچھ مل رہا ہے لیکن یہاں سابقہ فاٹا کے لوگوں کو اب بھی سٹون ایج میں رکھا جارہاہے۔
مایوسی گناہ ہے لیکن ذاتی طور کافی چیزوں کے حوالے سے مایوس ہو چکا ہوں کیونکہ ہم نے پندرہ بیس سالہ بدترین جنگ کے بدلے جن چیزوں کی امید باندھ رکھی تھی اس کے بالکل الٹ ہوا۔ ہم نے ریاست سے مرہم کی توقع رکھی تھی جبکہ ملے مزید زخم تفصیل لکھتے رہیں گے وجوہات بھی بتاتے رہیں گے مگر اس وقت ہم اس اندھیرے کی بات کررہے ہیں جو یہاں کی مایوس نسل کو مزید مایوسی کی طرف لے جارہا ہے۔
سابقہ فاٹا کے تمام علاقوں کے نوجوانوں کی آراء پڑھتا اور سنتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے حالات بھی وزیرستان ہی کی طرح ہے لیکن چونکہ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں ہم خود حالات کے متاثرین ہیں۔ میں نے ابتداء میں ذکر کیا کہ تحریر پبلش ہوگی لیکن میں نہیں پڑھ پاؤں گا کیونکہ آنے والے دو ڈھائی ماہ ہمیں اپنے علاقے میں رہنا ہے۔ ہمارے جنت نظیر وطن میں تعلیم کی سہولیات ملتیں تو ہم وہاں سے کسی اور جگہ جاتے ہی کیوں ؟ اوپر سے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کی شدید گرمیوں کی وجہ سے علاقے میں اسی فیصد لوگ واپس آجاتے ہیں جن میں سے زیادہ تعداد طلباء وطالبات کی ہوتی ہے جن کا انٹرنیٹ سروس بندش کی وجہ سے کافی تعلیمی حرج ہوجاتا ہے۔
ہمارے علاقوں، مکین لدھا سراروغہ کانیگرم بدر،شکئی رزمک وغیرہ کی تصاویر اس وقت انٹرنیٹ پر بطورِ خوبصورتی دنیا میں وائرل ہیں مگر اسی علاقے کی آبادکاری پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ہاں یہ سچ ہے کہ جنوبی اپر وزیرستان محسود علاقے میں آپریشن راہ نجات کے بعد بھی آبادکاری صرف گرمیوں کے دو تین ماہ تک ہی ہوتی ہے لیکن آپ خود سوچیں کہ ایک ایسا علاقہ کیسے آباد ہو سکتا ہے جس پر ایک طرف خوف کی تلوار لٹکی ہو دوسری طرف علاقے میں ذریعہ معاش بھی نہ ہو اور تیسری طرف آپ آج کے دور میں انٹرنیٹ سروس کو بطورِ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی اوقات بھی یاد دلاتے ہو۔
نوجوان طبقہ وہ ہے جو دس سال تک راہ نجات آپریشن کی وجہ سے علاقے سے باہر رہا، جنہوں نے اپنی جوانی میں قدم اپنے وطن سے دور رکھا اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہوں؟ مجھے اکثر اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آپ کے لوگ اپنے علاقے کو آباد ہی نہیں کرانا چاہتے کیونکہ علاقہ خالی ہے اور آپ کے علاقے کے لوگ ملک کے کونے کونے میں آباد ہو چکے ہیں۔
جب میں کہتا ہوں کہ ہمارا علاقہ پہلے سے زیادہ آباد ہوگا، اس بار خوشحالی اور آسودگی بھی ہوگی تو سننے والا حیران ہی ہوتا ہے کیونکہ زمینی حقائق میری پیشنگوئی کے بالکل الٹ ہیں ۔میرا ماننا ہے کہ اس علاقے کو ریاست کی طرف سے دو چیزوں کی ضرورت ہے پہلا امن اور دوسرا اس علاقے میں ٹورزم کو پروموٹ کرنے کے لیے اقدامات کریں تو یقین مانیں کہ اس علاقے میں ٹورازم ہی وہ سہارا ثابت ہوگا جس سے علاقہ دوبارہ آباد ہوگا کیونکہ یہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جہاں خوبصورت محلات ریسٹورنٹس یا روڈ نہیں بنائے گئے مگر قدرت نے جس قدر خوبصورتی عطاء کی ہے وہ بے مثال ہے۔
حالانکہ جن دو خواہشات کا ذکر کیا ہے ان کے پورا ہونے میں نادیدہ رکاوٹیں کھڑی ہیں مگر پھر بھی سوچنے پر تو پابندی نہیں ہوگی؟انٹرنیٹ سروس کی بندش کے حوالے سے حکام کے پاس صرف ایک وجہ ہے کہ سیکورٹی وجوہات کے بنا پر ایسا کیا جارہاہے لیکن ہمارا سوال تب بھی ہوتا کہ ٹھیک ہے جناب مگر جن وجوہات کی طرف آپ اشارہ کررہے ہیں کیا ان کو انٹرنیٹ تک رسائی اب حاصل نہیں ہے ؟ جس کا کبھی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔
ہاں یہ بات بھی سچ ہے کہ بعض علاقوں میں انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے خود سیکورٹی فورسز کے افسران بھی مشکلات کے شکار ہیں مگر اکثر جگہوں پر ان کو پی ٹی سی ایل کنیکشن تک بھی رسائی حاصل ہے مگر نچھلی سطح پر ایسا نہیں ہے۔
علاقے میں رہنے والے بطورِ ایک شہری جو تھوڑا بہت لوگوں کے نفسیات کو جاننے کا دعویدار بھی ہے اتنا سمجھتا ہوں کہ اس وقت انٹرنیٹ سروس کی بندش کی وجہ سے علاقے میں موجود ریاستی مشینری کے لیے کامیابی کے راستے ہرگز نہیں کھلنے والے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جہاں بھی کوئی سرکاری تقریب ہو جس میں بالخصوص فوجی عہدیدار موجود ہو ان سے لوگوں کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ انٹرنیٹ کیوں نہیں کھول رہے اور یقین مانیں کہ یہ اہلکار اس سوال کا جواب تو دے دیتے ہیں مگر جواب دینے والا خود بھی اپنے جواب سے مطمئن نہیں رہتا اور یوں معاملات میں سوال ہی بڑھتے ہیں اور جواب تو کوئی دینے سے رہا۔
میری ان تمام باتوں کا خلاصہ بس یہی ہے کہ ریاست سابقہ فاٹا کو کم از کم دنیا سے منقطع نہ کریں یہاں کے لوگوں کو آج کے مہذب معاشرے کو دیکھنے دیا جائے یقیناً کچھ آوازیں آپ کو اچھی نہیں لگیں گی مگر اس کے مجموعی طور پر معاشرے پر اچھے اثرات پڑیں گے اور چند سالوں میں ہی آپ محسوس کریں گے کہ اب مزید ایف سولہ کی بمباریوں کی ضرورت نہیں پڑنے والی البتہ شرط یہ ہے کہ آپ کی نیت میں اخلاص ہے؟
کیا آپ بھی ایسا ہی چاہتےہیں؟
نوٹ:یہ تحریر 19 جون کو وی نیوز پر شائع ہوچکی ہے.