شہریار محسود
ایک دن کی نیت لے کر اسلام آباد گیا تھا لیکن دو تین دن واپس نہ آسکا۔ اسلام آباد میں بھی افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ ان دوستوں کی محفلوں پر حاوی رہا جن کے ہاں ٹھہرا رہا۔
سفر کے دوسرے دن اسلام آبادمیں نادرا کے دفتر جانا پڑا جہاں سے واپسی پر ٹیکسی والے نے مجھے دیکھ کر پوچھا کہ آپ کسی اور علاقے سے لگ رہےہیں ؟ بتایا کہ وزیرستان سے ہوں تو انہوں نے پوچھا کہ وہاں بھی افغان مہاجرین رہتے ہیں؟ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو بتانے لگا کہ ابھی ایک پریشانی کا سامنا کرنے کے بعد آپ کے پاس آیا ہوں۔ ایک نوجوان روڈ پر گرکر بیہوش ہوا پڑا تھا جس کو کچھ لوگ میری ٹیکسی میں ہسپتال لے گئے۔ بندے کی حالت دیکھ کر کرایہ نہیں مانگ سکا اور کچھ دیر انتظار کے بعد ایک شخص آیا اور معذرت کے ساتھ کرایہ بھی دے دیا اور جب میں نے مریض کا احوال پوچھا تو بتایا کہ ڈاکٹروں نے بتایا کہ مریض نے ڈپریشن کی وجہ سے ہوش کھودیا تھا اور وہ نوجوان افغان تھا۔
میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت ملک میں جہاں اور کئی پریشانیاں موجود ہیں وہیں افغانوں کی واپسی کا مسئلہ بھی لوگوں میں ڈسکس ہو رہا ہے۔ خطے کی سیاست کے بطورِ ادنی طالب علم ، میری سوچ یہ ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے کے لیے ایک بار پھر غلط وقت کا انتخاب کیا گیا ہے۔
ایک افغان تاجر سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد ہم جیسے سینکڑوں کاروباری افراد اپنا سرمایہ پاکستان میں لائے ہیں جہاں یہ افغان سرمایہ کار اربوں روپے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستانی پورٹس پر اربوں روپے کے سولرپینلز میں ستر پچھتر فیصد افغان سرمایہ کاروں کی طرف سے منگوائی گئے ہیں۔
ان کے مطابق اس کے لیے پیسہ مجبوراً حوالہ یا ہنڈی سسٹم کے تحت ادا کرنا پڑتا ہے جس میں افغان سرمایہ کاروں کے لیے بڑے خطرات بھی ہیں، کیونکہ پکڑے جانے کی صورت میں سرمایہ ڈوب بھی سکتا ہے اور اگر حکومت پاکستان نے افغان سرمایہ کاروں کے لیے بینکوں میں اکاؤنٹس کھولنے کی اجازت دی ہوتی اور لیگل طریقے سے کاروبار کرنے کی اجازت دی ہوتی تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر انتہائی مثبت اثرات پڑنے تھے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ اگر ایسا ہو جائے تو یہ سرمایہ کار سب سے پہلے ٹیکس دیں گے کیونکہ ان کے بنیادی سرمایے کے ڈوبنے کا خطرہ ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سچ ہے کہ افغانستان میں جنگوں نے افغانوں کو بدترین معاشی حالات کا شکار بنادیا ہے لیکن ان تکالیف کے باوجود لاکھوں افغان خطرات مول لے کر پوری دنیا میں آباد ہوئے ہیں۔
دنیا کے مختلف حصوں میں آباد افغانوں کے پاس اس وقت کافی پیسہ ہے اور افغانوں کا یہ سرمایہ اس وقت دنیا کے کاروباری مارکیٹ میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔ افغان جس طرح کی محنت کررہے ہیں آنے والے سالوں میں عالمی اور خطے کی معیشت میں افغانوں کا پیسہ انتہائی اہم کردار ادا کرے گا لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے حکام اس حوالے سے کیوں نہیں سوچتے؟ کیونکہ اس وقت دنیا جہان میں موجود افغانوں کے خاندان یا رشتےدار پاکستان میں موجود ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے ان افغانوں کو اگر کاروباری سرگرمیوں کی اجازت ملتی ہے تو پاکستان کو اربوں کھربوں روپے کا فائدہ ہونا ہے اور یہ کہ اس وقت پاکستان میں حوالہ اور ہنڈی سسٹم کے خلاف بڑا کام ہو رہا ہے اور حوالہ یا ہنڈی کا یہ غیر قانونی سسٹم اسی روز دم توڑ جائے گا جس دن افغانوں کو قانونی طور پر کاروبار کی اجازت مل جائے۔
خیر یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہم جیسے لوگ سوچتے ہیں،جن کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں جو صرف سوچتے ہیں، لکھتے ہیں اور نتائج کے انتظار میں وقت گزارتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف حکومت اور انتظامیہ کی تیاریاں مکمل دکھائی دے رہی ہیں۔ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ اکتیس اکتوبر کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد پریشانیاں مزید بڑھیں گی بالخصوص جب حکومتی سطح پر عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس وقت سب سے زیادہ شور بلوچستان میں سنا جا سکتا ہے جہاں چمن میں بہت بڑا احتجاج ہورہا ہے اور متاثرین کا مطالبہ ہے کہ وہ پاسپورٹ سسٹم کو قبول نہیں کریں گے۔
سوشل میڈیا پر بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں مظاہرین کو ایک واضح پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ بارڈر پر نیا سسٹم ہر صورت لاگو ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اس سلسلے میں فی الحال کوئی لچک دکھانے کے موڈ میں نہیں ہے لیکن کیا اس حکومتی طرزِ عمل کو درست کہا جا سکتا ہے ؟ مجھے نہیں لگتا کیونکہ افغانوں کی یہاں تیسری چوتھی نسل بڑی ہو چکی ہے۔ وہ خود کو اسی معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں اور ان میں سے اکثر ان مجاہدین کے اولاد ہیں جن کی قربانیوں سے ہمارے لکھے گئے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
کہنا یہ ہے کہ افغان مہاجرین کو اگر اس لیے نکالا جارہا ہے کہ اس سے سسٹم کو مسئلہ درپیش ہے تو عرض یہ ہے کہ سسٹم کو سسٹم کے اندر سے مسئلہ ہے جس کا پائیدار حل ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ جن افغان مہاجرین کو ہم بوجھ کہہ رہےہیں وہ ہمارے اثاثے تھے اور اب بھی ثابت ہو سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم یہ دعویٰ تو کررہے ہیں کہ اب ہم سیکورٹی سٹیٹ نہیں رہیں گے لیکن عملی اقدامات ہمارے افکار کے الٹ ہیں۔ خدارا اس بارے میں سوچیے گا ضرور۔
نوٹ :یہ مضمون 31 اکتوبر کو وی نیوز پر شائع ہوا تھا.