جنوبی وزیرستان اپرکی بیوروکریسی اور کرپشن

شہریار محسود

جنوبی اپر وزیرستان کے لوگ جہاں انتظامی امور سے محروم ہیں اور یہاں کا نظام دورضلع ٹانک سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جاتا ہے وہیں دوسری طرف انتظامی سطح پر کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ تین چار سالوں میں سروے کے نام پر لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ سروے تحصیلداری کی باقاعدہ ریٹ لگتی رہی ہے ۔ اسسٹنٹ کمشنر سب ڈویژن لدھا کا دفتر کرپشن کا گڑھ بنا رہا ہے۔ لوگوں کے جائز سروے کے لیے لوگوں سے پیسے لئے جاتے رہے ہیں اور اس وقت جب ممبر قومی اسمبلی نے ڈیڑھ ارب روپے کی منظوری کی بات کی ہے اسسٹنٹ کمشنر لدھا آفس مبینہ طور ایک بار پھر اپنے پرائیویٹ و سرکاری ٹاوٹس کے ذریعے پیسے جمع کرنے میں مصروف ہیں۔

بدقسمتی سے اس حساس علاقے میں انیس الرحمن جیسے نا تجربہ کار افسران کو بھیج کر بھی اعلی حکام کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ موصوف کو صرف یہ پتہ ہے کہ اپنے آپ کو کیسے سنوارنا ہے جبکہ علاقے کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کی کیا بات کریں گے۔

اس وقت مبینہ طور پر محکمہ لوکل گورنمنٹ سے کسی سکیم میں بل کا تقاضا کیا جارہاہے جبکہ دوسری طرف محکموں کی حالت یہ ہے کہ ٹھکیدار پشاور سے آٹھ فیصد روپے دے کر پیسے لارہے ہیں۔ کمیشن کے اس کھیل میں آج کل کئی فریق شامل ہوچکےہیں جس کی وجہ سے یہاں کام کا معیار گرتا ہی جارہاہے۔

سرکاری افسران اگر ایسے موقعوں پر محکموں کو بلیک میل کرکے ہر صورت پیسے اینٹنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہمارے علاقے کا ہوگا کیا؟

حیران کن طور پر پشاور سے ایسے حساس علاقے میں ذہنی نابالغ لوگوں کو بھیج کر کیا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ اس کا گزشتہ کئی سالوں سے نقصان علاقہ ہی اٹھا رہا ہے۔

سروے کے حوالے سے کافی عرصے سے خاموشی اختیار کیے رکھی تھی کیونکہ اگر اس موقع پر کچھ کہا جاتا تو جن لوگوں کو چیک مل رہے تھے ان کا نقصان ہو سکتا تھا مگر اس وقت چونکہ نیا فیز آرہا ہے تو اعلیٰ حکام سے نوٹس لینے کی درخواست کرتے ہیں اور پچھلے ادوار میں ہوئی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔بطورِ خاص ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹرییشن کے ان آفسز سے ان تمام سٹاف کو تبدیل کیا جائے جو سابقہ ادوار میں لاکھوں روپے بنا چکے ہیں۔

اس حوالے سے کچھ دوستوں اور سیاسی مشران کے ساتھ مشورہ کریں گے اور آگے کا لائحہ عمل بھی تیار کریں گے۔ اس وقت اسسٹنٹ کمشنر لدھا انیس نے ڈومیسائل بنانے کے لیے جو شرائط لاگو کررکھے ہیں وہ ہمارے مجبور لوگوں کو لوٹنے کا ایک بہانہ بن رہا ہے کیونکہ ڈومیسائل کے لیے فارم ب سے لےکر سٹام پیپر تک کے شرائط رکھے گئے ہیں جبکہ وہی ڈومیسائل لوگ مختلف ٹاوٹس کو پیسے دے کر بغیر ان شرائط کے بنوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر سے نوٹس لینے کی درخواست ہے۔

اس وقت بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ پشاور میں بھی لوٹ مار جاری ہے جو سکیمیں پہلے ہی سے ٹھیکیداروں نےنقد پرسنٹیج دے کر لی ہیں ان پر نئے سیٹ اپ میں چھ فیصد مزید رقم کا تقاضا کیا جارہاہے۔

دوسری طرف ضلعی انتظامیہ کے ایسے افسران جنہوں نے صرف سنا تھا کہ فاٹا میں پیسوں کی بارشیں ہوتی تھیں اب بھی انہی حالات کی توقع کررہے ہیں اور پریشر دوسرے محکموں پر ڈال رہےہیں۔

مجھے ان طاقتوروں پر حیرانگی ہوتی ہے جو ہر چیز میں طاقت استعمال کرتے آئے ہیں لیکن جہاں ضرورت ہے جہاں سے نظام بنتا ہے وہاں پر گزشتہ چند سالوں میں اربوں روپے دن دہاڑے ڈکارے گئے مگر کسی کو کچھ نہیں کہا جاتا ؟ ارے صاحب اگر آپ واقعی چاہتےہیں کہ یہاں حالات بہتری کی طرف جائیں تو اس کی بنیاد ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹرییشن ہے جو کہ بالکل ختم ہو چکی ہے جس کے لیے آپ کو ایسے ایڈمنسٹریٹرز ڈھونڈنے ہوں گے جو کام بھی کر سکتے ہوں اور کم از کم ان کا لیول یہ نہ ہو کہ ہزار دو ہزار کی ڈیزل چوری نہ کررہے ہوں۔ معذرت کے ساتھ آج میرا لہجہ شاید تھوڑا تلخ ہو مگر یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے.