اسلام گل آفریدی
ضلع خیبرکا ہموار،زرخیزاور زیادہ زیر کاشت زمین تحصیل باڑ ہ کے علاقے اکاخیل میں ہے تاہم مذکورہ علاقے سے تعلق رکھنے والا چالیس سالہ عبداللہ کے گھر کے اردگرد پورا علاقہ بنجر پڑا ہے اورکہیں پر زیر کاشت زمین نظرنہیں آتی ہے۔ اُن کے بقول 2005سے پہلے پورا علاقہ سر سبزتھا اور لوگوں کا سو فیصد کمائی زرعی زمینو ں سے حاصل ہونے والا آمد ن پر تھی۔
اُنہوں نے کہاکہ اپنے آبائی جائیداد کے بارہ ایکڑ زمین پر گند م، گنا، مکئی، پھل اور سبزیاں کاشت کرکے نہ صرف پورے سال کی ضروریات پورا کرتے تھے بلکہ اضافی فصل کوبھیج کر اُس سے کھا د، زمین میں ہل چلانا اور گھرکی باقی ضروریات پورا کی جاتی لیکن اب لوگ دوسرے علاقوں میں محنت مزدوری کرکے گھر کے اخراجات مشکل سے پورا کرتے ہیں۔
زمینوں کوسیراب کرنے کے لئے پانی کے کمی کا مسئلہ نہ صرف عبداللہ بلکہ بڑی تعداد میں کاشتکار وں کو درپیش ہے۔محکمہ آبپاشی خیبر کے مطابق تحصیل باڑہ کے سپاہ، شلوبر قمبر خیل، بر قمبر خیل، ملک دین، اکاخیل اور جمرود تحصیل کے شاکس کے زرعی زمینوں کوسیراب کرنے کے لئے باڑہ بازار سے مغرب کی جانب 14کلومیٹر کے فاصلے پر سپر ہ کے مقام پر 1965میں دریا باڑہ پر ایک بند کی تعمیر شروع ہوئی جو 1975 میں مکمل ہوا اور 1978میں باقاعدہ ان کے نہروں میں 278کیوسک پانی کی ترسیل شروع ہوئی جس سے 44ہزار ایکڑ زمین سیراب کیاجاتاتھا تاہم پچھلے کئی سالوں سے پانی کی مقدا ر بتدریج کم ہوکر 120 کیوسک رہ گیا جس سے موجودہ وقت میں 18ہزار 224 ایکڑ ز سے بھی کم زمین سیراب ہوتی ہے تاہم مقامی لوگ مذکورہ اعداد وشمار سے اتفاق نہیں کرتے اور اس پانی سے دس ہزار ایکڑ سے بھی کم زمین سیراب کا دعویٰ کرتا ہے۔
قبیلہ شلوبر قمبر خیل کا علاقہ ارجلی ندی بھی زرعی پیداور کے لئے کافی شہرت رکھتا تھا لیکن اب بہت کم زمین زیر کاشت ہے۔ 35 سالہ علی مت خان کا تعلق بھی اس علاقے سے ہے اور پانچ میں سے صرف ایک ایکڑ زمین پر گند م اور سبزیاں کاشت کیا ہے لیکن اُن کے لئے بھی بروقت سیرا ب کرنے کے لئے پانی دستیاب نہیں۔اُنہوں نے کہاکہ تین سال پہلے پچاس کلوگرام کے ساٹھ سے ستربوریا ں گند م کی پیداوار زمین سے حاصل کی جاتی تھی لیکن اب فصلیں کیا بڑے درخت بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ گئے۔اُنہوں نے کہاکہ نہر میں پانی کی بہت کم مقدار چھوڑ جاتی ہے اور دوسری طرف لوگوں نے نہر میں جگہ جگہ غیرقانونی ناکے بنائے ہیں جس کے وجہ سے کاشتکاروں کو پانی نہیں مل رہا۔
باڑہ سب ڈویژنل آفیسر محکمہ آ بپاشی حیدر حیات کاکہنا ہے کہ بنیادی طورپر دریائے باڑہ میں پانی کی مقدار ماضی کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے اوراس وجہ سے نہر وں میں بھی کم پانی چھوڑا جاتاہے جبکہ دوسرے جانب قانونی ناکوں میں لوگوں کے طرف سے مداخلت کے شکایت موصول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کاشتکاروں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
اُنہوں نے کہاکہ اس قسم کے اقدامات کی روک تھام کے لئے باڑہ کے نہر ی نظام پر آٹھ ملازمین تعینات ہیں تاہم طویل نہری نظام کی وجہ سے مسائل موجود ہیں۔
محکمہ زراعت توسیع خیبر کے ڈائریکٹرضیا ء اسلام داوڑ کے مطابق ضلع خیبر کا کل رقبہ 2لاکھ 57ہزار 676ہیکٹرہے جن میں 24ہزار 518ہیکٹر زیر کاشت ہے جبکہ 2ہزار80ہیکٹرپر جنگلات موجودہیں تاہم موجودہ وقت میں ایک منصوبے کے تحت مذکورہ اعداد شمار کے کے لئے ایک منصوبہ شروع کیاجارہاہے اور جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے جلد نئے اعداد شمار جمع کرائینگے۔
اُنہوں نے کہاکہ خیبر تحصیل باڑہ میں کاشتکاروں کے طرف سب سے بڑا مسئلہ زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے پانی کی کم مقدار ہے جس کے وجہ سے پیدواری صلاحیت کم ہورہی ہے۔اُن کے بقول موسمیاتی تبدیلی کے بناء پر بارشیں وقت پر نہیں ہوتی اور مقدار میں بھی کافی زیادہ کمی آئی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پچھلے کئی سالوں میں ضلع کے مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی کا سطح بھی نیچے چلی گئی جس وجہ سے کنویں خشک ہورہے ہیں۔اُن کی نظر میں تمام مسائل کا واحد مجوزہ باڑہ ڈیم کے ساتھ دیگر چھوٹے بارانی ڈیموں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے جس سے نہ صرف نہروں کے ذریعے زرعی زمینوں کودرکار پانی میسر ہوگابلکہ زیر زمین پانی کے مقدار میں بھی اضافے کے ساتھ زیر کاشت رقبے میں بھی میں اضافہ ہو گا بلکہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی آسانی کے ساتھ میسرہوگا۔
محکمہ آب آبپاشی خیبر پختونخواکے ذیلی ادارے سمال ڈیمز سے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق پچیسویں آئینی ترامیم کے بعد قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد دیگر اداروں کے طرح مجوزہ ڈیمز کے منصوبوں کے اُموربھی صوبے کے محکمہ آبپاشی کے حوالے کیا گیا ہے جن میں ایک ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ میں باڑہ ڈیم بھی شامل ہے۔
ادارے کے مطابق فیزیبلٹی سٹڈی پر کام جاری ہے اور وقتاًفوقتا ًکنلسلٹنٹ کے ساتھ اجلاسوں میں ہونے والے پیش رفت رپورٹ کا جائزہ لیا جاتاہے۔ معلومات کے مطابق باڑہ ڈیم منصوبے کے فیزبیلٹی سٹڈی گورنر سیکرٹریٹ فاٹا نے نسپاک کنسلٹنٹ کے ذریعے 2006سے 2008تک مکمل کیا تھا۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق ڈیم کے تعمیر کے لئے کل تخمینہ 10.998بلین روپے لگایاتھا لیکن بروقت فنڈ فراہم نہ کرنے کی وجہ سے موجودہ وقت میں لاگت کا تخمینہ 45ارب روپے لگایاگیا ہے۔انضمام کے بعد صوبائی حکومت نے باڑہ ڈیم کی تعمیر، فیزبیلٹی سٹڈی کو ایکسیلرٹیڈ امپلمینٹشن پروگرام (AIP) میں شامل کیاہے۔مشاورتی انجینئرزبرائے فیزیبلٹی سٹڈٹی اور تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن کی مشترکہ ٹیم نے مارچ 2022سے منصوبے پر سروے کا کام شروع کیا اور قابل عمل رپورٹ (Review and Inspection report) مکمل کرکے محکمے کو جمع کیاہے۔
نہروں میں پانی کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے نہ صرف زرعی زمین بنجر ہورہی ہے بلکہ علاقے کے لوگوں کو پینے اور گھر کے ضرریات پورا کرنے میں بھی مسائل کاسامنا کرنا پڑرہاہے .تحصیل باڑہ کے تجارتی مرکز سے چار کلومیٹر مشرق کے جانب واقعہ علاقہ منڈی کس کے پچاس سالہ سیدشاہ اپنے گھر سے تین کلومیٹر تک نہر میں جگہ جگہ ناکے بند کرنے میں مصروف ہے تاکہ گھر میں پینے او ر دیگر ضروریات کے لئے پانی دستیاب ہوسکے۔ اُنہوں نے کہاکہ چار دنوں سے نہر میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں پینے اور دیگر ضروریات کے لئے پانی ختم ہوچکا ہے تاہم نہر میں موجود پانی کے مقدار سے مطمئین نہیں کہ اُن کے گھر تک پہنچ سکے۔
عبداللہ کے مطابق آبپاشی کے پانی کے دو بڑے مسائل ہیں جن میں ایک دریائے باڑ ہ میں پانی کی کمی اور دوسرا پانی کا غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ علاقے کے کاشتکاروں نے حکومتی سطح پر مسئلے کے حل کے لئے کافی کوششیں کی اور اس سلسلے میں محکمہ آپباشی ،محکمہ زراعت اور ضلعی حکام متواتر نہر کے دورے کرچکے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُنہوں نے کہاکہ جب تک باڑہ ڈیم تعمیر نہیں کیاجاتاہے تب تک دوبارہ بنجر زمینن آباد نہیں ہوسکتی۔
باڑ ہ میں پہلے سے موجود سپر ہ ڈیم یا بند؟
باڑہ میں اب تک کوئی ڈیم تعمیر نہیں کیاگیا ہے۔ انجنیئرحیدر حیات کے مطابق وادی تیراہ سے دریائے باڑہ اور اورکزئی کے دریائے مستورہ ممانڑی کے علاقے مل کر چار کلومیٹر مشرق کے جانب بہتے ہوئے سپر ہ کے مقام پر ایک بند میں پانی کو روک کر تحصیل باڑہ کے زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے مین کنال میں 279 کیوسک جبکہ 36کیوسک پانی دریا باڑ ہ میں چھوڑا جاتاہے۔ اُنہوں نے بتایا بند کا بنیادی مقصد دریا ئے باڑ ہ میں بہنے والے پانی کو روک کر علاقے کے زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے نہر ی نظام میں منتقل کرنا ہے جبکہ یہاں پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ اُن کے بقول اگر دریا میں پانی کی مقدار زیادہ ہوگئی تو کاشتکاروں کو زیادہ پانی ملے گا لیکن اگر بارشیں اوربرفباری کم ہوئی تو پانی کی مقدار خود بخود کم ہوجائیگی۔ اُنہوں نے بتایا کہ سپرہ بندکے تعمیر کے وقت دریا ئے باڑہ میں چار سو سے پانچ سوکیوسک پانی بہتاتھا تاہم موجودہ وقت میں یہ مقدار اوسطا ً120کیوسک ہی رہ گیا ہے جوکہ بہت کم ہے۔
دستاویز میں سمال ڈیمز،محکمہ آپباشی خیبر پختونخوانے بتایاہے کہ مجوزہ وادی تیراہ کے دریائے باڑہ اور ضلع اورکزئی کے دریا ئے مستورہ کے سنگم پر واقع تحصیل باڑہ کے علاقے ممانڑی میں بڑے شاہراہ پر واقع پل کے مغرب کی جانب آکاخیل میں تعمیر کیاجائیگا۔ یہی مقام سپیرہ بند سے 3.7کلومیٹر مغرب کے جانب واقع ہے۔ ادارے کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے 42ہزار ایکڑ زمین جن میں 36ہزار420باڑہ کینال سسٹم اور 5ہزار 309ایکڑزمین سول ایریگیشن سسٹم سے سیراب ہوگا جبکہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ڈیم سے چھ میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہوگی۔باڑہ ڈیم کی تعمیر کے لئے 45ارب روپے کااندازہ لگایاگیا ہے تاہم سٹڈی مکمل ہونے کے بعد ختمی لاگت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔مجوزہ ڈیم میں پانی روکنے کے لئے بند کی لمبائی 450میٹر اور اونچائی 92میٹر ہوگی۔ پانی کی ذخیرہ کی گنجائش 85ہزار 363ایکٹر فٹ ہوگی جن میں 62ہزار 434ایکٹر فٹ زیر استعمال لایا جائیگا۔
باڑہ کا نہری نظام
محکمہ آبپاشی ضلع خیبر کے مطابق سپرہ بندھ میں دریا باڑہ پر پانی روکنے کے لئے دو پینل یا دروازے لگائے گئے ہیں جس کے مدد سے پانی روک کر 27سو میٹر طویل او ر سات قطر کے ٹنل میں 279کیوسک پانی منتقل کردیا جاتاہے جوکہ آگے بڑی نہر میں 915میٹر بہتے ہوئے سپاہ قبیلے کے علاقے دو جنگی تک پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ یہاں سے چھوٹی اور بڑی نہروں کے علاقے میں 104کلومیٹر جال پھیلا ہوا۔ ادارے کے مطابق رائٹ بینک کینال 211کیوسک اکاخیل، سپاہ اور شلوبر جبکہ لفٹ بینک کینال میں 68کیوسک پانی ملک دین خیل، برقمبرخیل اور کوکی خیل کے زرعی زمینوں کو سیرا ب کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ریور ایکٹ کے تحت ہر صورت میں پشاور کے علاقے شیخان کو 16، سنگو کو 10اور ائیر فورس کو پینے کے لئے 10کیوسک پانی مہیا مہیاکیاجاتاہے جبکہ چار کیوسک پانی راستے میں ضائع ہو جاتاہے۔
پانی کی مقدار کیوں کم ہوئی
کچھ عرصہ قبل سینٹ کے قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کو بتایا گیا کہ پچھلے دس سالوں میں ملک بھی میں زیر زمین پانی کے سطح نیچے چلی گئی یہ مقدارضلع خیبر میں 74فٹ بتائی گئی ہے جوکہ ملک سطح پر سب زیادہ ہے۔ سترکی دہائی کے اعدا شمار کے مطابق دریائے باڑہ میں چار سو سے پانچ سو کیوسک پانی بہتا تھا جن میں 278ضلع خیبر اور چالیس کیوسک پانی پشاور کو فراہم کیا جاتاتھا جبکہ باقی برستاتی نالے میں بہہ جاتاتھا۔ محکمہ آپباشی خیبر کے تازہ اعداد شمار کے مطابق دریا باڑہ میں پانی کی مقدار 120کیوسک سے بھی کم رہ گئی ہے جوکہ پانی کی انتہائی کم سطح ہے۔ ادارے نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ اگر مستقبل میں ڈیم کے منصوبے پر کام نہیں کیا جاتھا تو مذکورہ مقدار میں مزید کمی واقع ہوگی۔
انجینئرحیدر حیات کاکہنا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کی بناء پر درجہ حرات میں اضافہ ہوا اور بارشوں کی نہ صرف مقدار میں کمی آرہی ہے بلکہ غیر ضروری وقت میں بارشیں ہونے سے فصلوں اور آبی ذخائر کو فائدے کے بجائے نقصا ن کا سبب بن رہاہے۔ اُنہو ں نے کہاکہ باڑہ کے زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے بڑا ذریعہ دریائے باڑہ میں بہنے والے پانی ہے جو وادی تیراہ اور اورکزئی سے آتاہے تاہم ان علاقوں میں برفباری کی مقدار میں کمی کی وجہ سے دریامیں پانی کا مقدار کم ہوگیا۔
پاکستان کونسل برائے تحقیقاتی آبی وسائل یا پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹرریسورسیز(PCRWR) کے خیبر پختونخوا میں سربراہ ڈاکٹر منیب خٹک نے کہاکہ زیر زمین پانی سالانہ چار سے پانچ میٹر نیچے جارہاہے جس کی بنیادی وجہ ضرورت سے زیادہ پانی نکالنا اور اُن کو ضائع کرنا ہے۔اُن کے بقول موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کے مقدار میں کمی، کارخانوں اور رہائشی کالونیوں،کارخانوں اورسروس سٹیشنوں میں پانی کے بے دریغ استعمال کے ساتھ پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لئے منصوبوں پرکام نہ ہونا وہ بنیادی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے جارہی ہے بلکہ اس کی مقدار میں بھی میں کمی واقع ہورہی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ زرعی زمینوں کو روایتی طریقوں سے سیراب کرنے سے بھی پانی کی بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے جبکہ بغیر کسی حکومتی اجازت کے ٹیوب ویل اور کنوایں بنا ئےجارہے ہیں۔اُن کے بقول خیبر ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں پر مختلف مقامات پر برساتی نالیوں پر چھوٹے اور بڑے ڈیم تعمیر کئے جاسکتے ہیں جس کے مدد سے نہ صرف سیلابی ریلوں کے نقصانات پر قابو پایاجاسکتاہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے پانی کے ذخائر محفوظ کیا جاسکتاہے۔
مقامی سطح پر پانی کے تقیسم پر تنازعات
سعید کا تعلق قبیلہ شلوبر قمبر خیل کے علاقے ارجلی ندی سے ہے۔ چا ر ایکڑ زرعی زمین میں سے انہوں نےصرف آدھے ایکڑ پر گندم کاشت کی ہوئی ہے۔اُن کے بقول بارشیں بھی کافی کم ہو رہی ہیں جبکہ نہر میں پانی کی مقدار اتنی نہیں کہ جس سے پوری زرعی زمین سیراب ہوسکے۔ اُنہوں نے کہاکہ جب کھیتوں کو پانی لگانے کی باری ہو تو تین گھنٹے پہلے گھر سے چار یا پانچ بندے جگہ جگہ پرنہر میں پانی کے نگرانی کرنے کے لئے کھڑے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ بڑے نہر کے قریب دوسرے قبیلے کے لوگ پانی آگے نہیں چھوڑتے ہیں۔
چالیس سالہ نبی گل کا تعلق سپا ہ قبیلے سے ہے اور چھ ایکڑ میں صرف دو ایکڑ زمین پر پانی کی کمی وجہ سے گند م کاشت کرچکے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ نہر میں ایک طرف پانی کی مقدار کم ہے اور دوسری طرف حکو مت نے نہر میں ایسے مقامات پر ناکے بنائے ہیں کہ جس سے کھیتوں تک پانی جاناممکن نہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ مجبوراً نہر میں بند بند ھنا پڑتاہے۔
گل نظیر آفریدی سماجی کارکن اور دیگر مسائل کے ساتھ علاقے میں آبپا شی کے لئے پانی کی تقسیم پر قبیلوں کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے دیگر ساتھیوں کے ساتھ کام کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے مقابلے میں نہر میں پانی کی مقدار کافی زیادہ کم ہوچکی ہے لیکن دوسری طر ف سرکاری سطح پر قائم ناکوں کے سائز بڑھنا اور غیر قانونی ناکے بنانے سے علاقائی تنازعات پیدا ہورہے ہیں۔ اُنہو ں نے کہاکہ جب تک پانی کا مقدار دریا سے نہر میں نہیں بڑھتا تب تک لوگوں کو پانی کی تقسیم پر صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
حکومتی اداروں کا موقف رہاہے کہ ایک تو نہری نظام کافی لمبا ہے اور نگرانی کرنے والے عملے کی تعداد کم جبکہ دوسری بنیادی وجہ نہر میں پانی کم مقدار ہے جس کا حل ڈیم کے تعمیر کے ساتھ جوڑا ہوا ہے)
باڑہ ڈیم کب تعمیرہوگا؟
باڑہ ڈیم کے تعمیراتی منصوبے میں تاخیر کے سوال پر سمال ڈیمز کے حکام نے بتایاکہ علاقے میں سیکورٹی صورتحال اور فنڈکی عدم دستیابی ہے تاہم صوبائی حکومت منصوبے کے لئے فنڈ کی فراہمی کوشش کررہاہے ۔اس منصوبے سے علاقے میں ایک مڈل سکول، ایک بنیادی صحت کا مرکز، خیبر اور اورکزئی کے درمیان تین کلومیٹر سڑک، اورکزئی کے علاقے کا ایک کلومیٹر کا علاقہ، ایک قبرستان اور کچھ گھر متاثر ہونگے۔زمین کے حصول کے لئے ایکوزیشن ایکٹ کے مطابق پی سی ون تیارکیاجائیگا۔
باڑہ ڈیم کی تعمیر سے 85ہزارایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا ہوجائیگی جس سے ہر سال سیلاب سے ہونے والے نقصانات سمیت زیر زمین پانی کی کمی کا سنگین مسئلہ کافی حد تک حل ہوجائیگا۔ اعداد شمار تفصیلی سروے مکمل ہونے کے بعد معلوم ہوں گے۔