بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے30 اکتوبر کو پارٹی کے تمام سابق سینیٹرز اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہمراہ اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک لاپتہ افراد کی بازیابی اور وڈھ سمیت بلوچستان سے ڈیتھ اسکواڈ اورمبینہ دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن نہیں بنایا جاتا ہماری جدوجہد جاری رہے گی.
ان خیالات کا اظہار انہوں نے وڈھ کی کشیدہ صورت حال کے حوالے سے اتوار کو وڈھ سے کوئٹہ کے لئے لانگ مارچ کے اختتام پر کوئٹہ میں نواب اکبر خان بگٹی اسٹیڈیم میں منعقدہ جلسے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا .
اس موقع پر مرکزی سیکرٹری جنرل واجہ جہانزیب بلوچ ،سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ،سابق اراکین صوبائی اسمبلی ملک نصیر احمد شاہوانی شکیلہ نوید دہوار ،ڈاکٹر قدوس موسیٰ جان بلوچ، میر نذیر احمد کھوسو ،بی ایس او کے چیئرمین بالاچ بلوچ اور سابق چیئرمین بی ایس او جاوید بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے.
سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بی این پی کو لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ اور دہشت گردوں کی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں کی جا رہی ہے اور جان بوجھ کر وڈھ کے حالات خراب کرکے ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے.
ان کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور سے لے کر 2015 تک ہم لاشیں اٹھاتے رہے ہیں ہم اس طرح کے ناروا اقدامات اور پارٹی کے خلاف کئے جانے والے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوں گے.
انہوںنے کہاکہ ہم نے ہمیشہ اپنے نوجوانوں خواتین بزرگوں کو درپیش مسائل کے حل اور ان کی عزت نفس کو بحال کرنے اور ننگ و ناموس کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ہم لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچستان کے مسائل کے حل مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے ان کے پیچھے جو بھی محرکات اور قوتیں کار فرما ہیں ان کو منظر عام پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے اگر ہمیں سیاسی اور پارلیمانی نظام میں زندہ رہنے کے لئے نہ چھوڑا گیا تو ہم ہر آئینی و جمہوری طریقہ اپنائیں گے.
قائد بی این پی کا کہنا تھاکہ ہم نے کبھی بھی سیٹوں کے حصول کے لئے مقتدر قوتوں کی چوکھٹ پر سر نہیں رگڑا جو مذہبی سیاسی پاکستان پرست لوگ 14 اگست کے حوالے سے ریلیاں نکال کر ایک سیٹ کے حصول کے لئے ماتھے رگڑتے ہیں، ہم یہ کام نہیں کرتے کیونکہ ہمیں سیٹیں اپنے لوگوں کی وجہ سے ملتی ہیں اور آئندہ بھی ملیں گی .
اختر مینگل کا کہنا تھاکہ حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کو بلوچستانیوں کا خون پانی نظر آتا ہے جس طرح اسرائیل میں خواتین بچوں اور بزرگوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اس پر عالمی طاقتوں اور قوتوں کی زبان بند ہے اسی طرح وڈھ کے معاملے پر بھی حکومت کی بے حسی سب کے سامنے عیاں ہے.
ان کا کہنا تھا کہ ایپکس کمیٹی کا پہلا اجلاس بلوچستان میں کرکے لاپتہ افراد کی بازیابی ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف کارروائی کے بجائے وڈھ کے مسئلے کو ڈسکس کیا جاتا ہے جس میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ خصوصی طور پر شرکت کرتے ہیں اور کمیٹی کو مستونگ سانحہ پر ایکشن لینے کا معاملہ یاد نہیں صرف وڈھ کی صورت حال کو زیر بحث لا کر ڈیتھ اسکواڈ اور کو تحفظ دینا ہے.
انہوں نے کہا کہ ہم نے وڈھ کے حالات لاپتہ افراد کی بازیابی اور پر امن بلوچستان کے لئے ہر محاذ پر آواز بلند کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے اور یہ جدوجہد ڈیتھ اسکواڈ اور مبینہ دہشت گردوں کے خاتمے اور وڈھ کے حالات کی بہتری لاپتہ افراد کی بازیابی تک جاری رہے گی اور پارٹی کے سابق تمام سینیٹرز اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنا دے کر احتجاج ریکارڈ کرائیں گے یہ احتجاج مطالبات کے حصول تک پر امن طور پر جاری رہے گا۔
قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام وڈھ سے بی این پی کے مرکزی سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں لانگ مارچ شروع ہوا۔ لانگ مارچ کے شرکا کا وڈھ اور خضدار کے مقام پر خواتین اور بچوں سمیت بی این پی کے رہنماؤں نے استقبال کیا اور پھول نچھاور کیے۔
خضدار میں عہدیداران اور کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور بی این پی سربراہ کا والہانہ استقبال کیا ۔
لانگ مارچ کے ساتھ مختلف علاقوں نال زیدی باغبانہ سے بھی کارکنان قافلوں کی شکل میں لانگ مارچ میں شریک ہوئے . قلات اور منگچر میں بھی لانگ مارچ کے شرکاء کا پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں نے والہانہ استقبال کیا ۔مختلف علاقوں نال، زیدی، باغبانہ سے بھی کارکنان قافلوں کی شکل میں لانگ مارچ میں شریک ہوئے۔
لانگ مارچ کے اختتام پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر جاری پیغام میں اختر مینگل نے 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ ’پالیسی بنانے والے بلوچستان کے حالات بہتر کرنے کے بجائے ایک مرتبہ پھر آگ میں دھکیل رہے ہیں‘۔
اختر مینگل نے لانگ مارچ کے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمارے راستے میں لاتعداد رکاوٹیں ڈالی گئیں لیکن یہ عوام کا سمندر نہ رک سکا جس کا سامنا کرنے والے اتنے خوفزدہ تھے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’جب تک ڈیتھ اسکواڈز کو ختم نہیں کیا جاتا ہم احتجاج ختم نہیں کریں گے۔