اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بغاوت اور اشتعال پھیلانے کے مقدمے میں ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری اور سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کرلی۔
جج ابوالحسنات نے علی وزیر اور ایمان مزاری کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت کی۔
دوران سماعت ایمان مزاری کی جلسے میں تقریر کا متن پڑھ کر سنایا گیا، پراسیکیوٹر کی جانب سے دلائل کے دوران ضمانت کی مخالفت کی گئی، انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ابھی تک یو ایس بی (جس میں ایمان مزاری کی تقریر موجود ہے) کی رپورٹ نہیں آئی، تقریر کی فرانزک کروانی ہے۔
تاہم عدالت نے ایمان مزاری اور علی وزیر کی 30، 30 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی، دونوں کو تاحال جیل سے رہا نہیں کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ علی وزیر کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ایمان مزاری کو 20 اگست کی صبح ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد کے ترنول پولیس اسٹیشن اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس اسٹیشن میں دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئیں۔
یہ گرفتاریاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے کے 2 دن بعد کی گئیں، جلسے سے پی ٹی ایم کے رکن علی وزیر اور ایمان مزاری دونوں نے خطاب کیا تھا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر زیر گردش جلسے کی ویڈیوز میں مقررین کو جبری گمشدگیوں کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔
دونوں کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا، جہاں ان کے خلاف درج 2 مقدمات کی سماعت ہوئی تھی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کے ڈیوٹی جج احتشام عالم نے بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت پر تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 2 ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اسی مقدمے میں علی وزیر کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 22 اگست کو متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
دونوں ملزمان کے خلاف دوسری ایف آئی آر دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کی گئی تھی۔
22 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بغاوت، دھمکانے اور اشتعال پھیلانے کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں علی وزیر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ اسی مقدمے میں ایمان زینب مزاری کی ضمانت منظور کرلی تھی۔
ایمان مزاری دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج دوسرے مقدمے میں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں تھیں، لہٰذا ان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی تھی تاہم آج مذکورہ مقدمے میں بھی ان کی ضمانت منظور کرلی گئی ہے۔