سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان میں مردم شماری کےخلاف اپیل میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے جواب طلب کرلیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے 29 اگست کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ درخواست گزار نے مشترکہ مفادات کونسل میں نگران وزرا اعلی کی شمولیت پر اعتراض کیا۔
درخواست گزار کے وکیل کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ مردم شماری سے شہریوں کے بنیادی حقوق وابستہ ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کامران مرتضی سے مکالمہ کیا کہ آپ نے جس وزیر اعلیٰ کو منتخب کیا اس نے مردم شماری پر اعتراض نہیں کیا، اب اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ آپ لوگ اس وزیر اعلیٰ کو دوبارہ ووٹ نہ دیں۔
وکیل نے کہا کہ بلوچستان میں جس طریقے سے وزراء منتخب ہوتے ہیں وہ ایک الگ بحث ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 8 فروری کو انتخابات سے متعلق کیس میں بھی مشترکہ مفادات کونسل کا ذکر ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 8 فروری کو عام انتخابات سے متعلق کیس کا فیصلہ بھی آئندہ سماعت پر دیکھ لیں گے۔
اپیل کنندہ کی نمائندگی کرتے ہوئے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے دعویٰ کیا ہے کہ مردم شماری کے آخری مرحلے تک بلوچستان کی آبادی 2 کروڑ 17 لاکھ کے قریب رپورٹ کی گئی تاہم ادارہ شماریات نے حتمی رپورٹ میں اس میں تقریباً 70 لاکھ کی کمی کر کے تعداد ایک کروڑ 48 لاکھ 90 ہزار ظاہر کی۔پھر اگست میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے کم کی گئی تعداد کی منظوری دے دی تھی۔
گزشتہ سماعت کے دوران جب بینچ نے نشاندہی کی تھی کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نے سی سی آئی کے اجلاس میں مردم شماری کے نتائج کی توثیق کی تھی تو ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ رضامندی ’زبردستی‘ تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹی وی چینلز نے یہ خبر بھی نشر کی تھی کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان 5 اگست کو ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
جب جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ سابق وزیراعلیٰ کہاں تھے اور انہیں میٹنگ میں کون لے گیا تو وکیل نے جواب دیا کہ وہ سو رہے تھے اور انہیں جہاز کے ذریعے میٹنگ میں لے جایا گیا۔
کارروائی کے دوران وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر آبادی کو کم نہ کیا جاتا تو بلوچستان کو قومی اسمبلی کی 10 اضافی نشستیں ملتیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے تجویز پیش کی کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت سی سی آئی کے فیصلے کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ انہوں نے یہ معاملہ سینیٹ میں اٹھایا تھا اور اراکین احتجاجاً واک آؤٹ بھی کر گئے تھے۔
وکیل نے مزید کہا کہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے وقت سی سی آئی کی تشکیل ٹھیک نہیں تھی، انہوں نے مزید کہا کہ جب اجلاس بلایا گیا تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگراں حکومتیں تھیں۔
آئین کے آرٹیکل 153 کے تحت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر سی سی آئی کا تقرر کرتا ہے، وزیر اعظم سی سی آئی کی سربراہی کرتے ہیں۔
کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی، وزیر بین الصوبائی رابطہ اور وزیر توانائی شامل ہوتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔
9 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل سے چند دن قبل 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری متنازع بن گئی، اس فیصلے سے عام انتخابات میں تاخیر ہوئی جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) جو اس وقت حکومت کا حصہ تھی نے حتمی نتائج پر بھی اختلاف کیا۔
واضح رہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے مردم شماری کے نتائج میں صوبے کی حتمی آبادی کی گنتی کو چیلنج کرنے سے متعلق پٹیشن خارج کردی تھی۔