شبانہ احمدی
سحر کی جان تو بچ گئی مگر اُس کے خواب آج بھی بے یقینی اور دربدری کے سائے تلے معلق ہیں۔ نہ مستقبل کا راستہ صاف دکھائی دیتا ہے، نہ امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے۔
افغانستان میں جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد لاکھوں افراد کو اپنا وطن چھوڑ کر پڑوسی ممالک میں پناہ لینا پڑی۔ پاکستان، جو دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے ایک بار پھر ہجرت کی نئی لہر سے متاثر ہوا۔
ان بے گھر لوگوں میں ہر ایک کی زندگی ایک الگ داستان ہے،درد، جدوجہد اور ٹوٹے خوابوں کی کہانی۔ انہی میں سے ایک کہانی ہے سحر کی جو اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد میں مقیم ہے۔
سحر اپنی والدہ، دو بہنوں اور ایک بھائی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے، لیکن مالی مشکلات اور غیر یقینی مستقبل نے ان کی روزمرہ زندگی کو مشکل بنا رکھا ہے۔
ایک زمانے میں باہمت اور پرامید لڑکی رہنے والی سحر اب شدید ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس نے خودکشی کی کوشش کی، مگر خوش قسمتی سے اُس کی بہنوں نے بروقت اسپتال پہنچا کر اس کی جان بچالی۔ یہ واقعہ اس نفسیاتی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جو پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو درپیش ہے۔
سحر کی والدہ آنکھوں میں آنسو لیے بتاتی ہیں، ’’میری بیٹی بے روزگاری اور غیر یقینی مستقبل سے تنگ آچکی ہے۔ نہ تعلیم کی سہولت ہے، نہ روزگار کا کوئی موقع۔
اس کی ذہنی حالت بہت نازک ہے۔‘‘ ان کے یہ الفاظ ہزاروں افغان نوجوانوں کے احساسات کی گونج ہیں جو نہ وطن واپس جا سکتے ہیں اور نہ ہی یہاں کوئی باعزت زندگی گزار پا رہے ہیں۔
پاکستان میں افغان مہاجرین میں خودکشی کے بڑھتے واقعات تشویش ناک صورت اختیار کر چکے ہیں۔ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق پچھلے چار برسوں میں صرف اسلام آباد میں کم از کم پانچ افغان مہاجرین ذہنی دباؤ اور مایوسی کے باعث اپنی جان لے چکے ہیں۔ اگرچہ یہ تعداد بظاہر کم ہے، مگر یہ ایک پوشیدہ بحران کی علامت ہے جو توجہ نہ ملنے کی صورت میں سنگین رخ اختیار کر سکتا ہے۔
اکثر افغان مہاجرین کے پاس قانونی دستاویزات نہ ہونے کے باعث انہیں تعلیم، ملازمت اور بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں۔ پاکستان کی کمزور معاشی حالت نے بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ یہی عوامل ان کے اندر بے بسی، اضطراب اور ذہنی دباؤ کو جنم دے رہے ہیں۔
سماجی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر افغان مہاجرین کی معاشی اور نفسیاتی ضروریات کو نظرانداز کیا گیا تو یہ مسئلہ مہاجرین کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے کے لیے بھی خطرناک بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق ذہنی صحت کی سہولیات، مشاورت مراکز اور تعلیم و روزگار کے مواقع پیدا کرنا ناگزیر ہے۔
فی الحال سحر اسلام آباد میں اپنے خاندان کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے مگر اُس کے دل کے زخم ابھی بھرے نہیں۔ وہ کہتی ہے، ’’کبھی کبھی لگتا ہے کہ میرے لیے کوئی راستہ نہیں بچا۔ نہ وطن لوٹ سکتی ہوں، نہ یہاں کوئی مستقبل ہے۔‘‘ تاہم اُس کی بہنوں کا ساتھ اور ماں کا حوصلہ ہی اسے ٹوٹنے سے بچائے ہوئے ہیں۔
سحر کی کہانی صرف ایک فرد کی داستان نہیں بلکہ اُن ہزاروں افغان مہاجرین کی نمائندگی کرتی ہے جو ہجرت اور غیر یقینی مستقبل کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ یاد دلاتی ہے کہ ہجرت صرف جسمانی نقل مکانی نہیں، بلکہ روح، شناخت اور امید کی گہری آزمائش ہے۔
سحر صرف ایک نام نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کی علامت ہے جس کے خواب جنگ، جلاوطنی اور بے یقینی نے چُرا لیے۔ اگر عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں نے بروقت اقدام نہ کیا تو افغان نوجوانوں میں ناامیدی اور خودکشی کے بڑھتے رجحانات مزید المیے جنم دے سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کی جدوجہد کو ہمدردی اور ذمہ داری کے ساتھ سمجھا جائے اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔









