سابقہ نیم قبائلی علاقےحسن خیل میں روایتی قدرتی پھل ناپید، وجہ موسمیاتی تبدیلی یا انسانی مداخلت؟

شمائلہ آفریدی

حسن خیل کی پہاڑیوں میں وقت کے ساتھ وہ قدرتی حسن معدوم ہوتا جا رہا ہے جو کبھی اس علاقے کی پہچان تھا۔

یہاں کے قدرتی روایتی پھل، جن میں ممانڑہ، شنورے، گرگرے، زیتون، انجیر اور غریبہ بیرہ شامل ہیں جو اب بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مقامی بزرگ خواتین کی یادوں میں یہ پھل آج بھی زندہ ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی موجودگی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔

ساٹھ سالہ بی بی ماں بتاتی ہیں کہ ان کے جوانی کے دنوں میں یہ پھل صرف خوراک کا ذریعہ نہیں تھے بلکہ پہاڑی زندگی کی خوشبو تھے۔ وہ سہیلیوں کے ساتھ پہاڑوں پر جاتی تھیں، درختوں سے پھل توڑتیں، اور ان کی مٹھاس کو اپنے روزمرہ کی زگی میں سمیٹتی تھیں۔ ان کے مطابق، اب نہ وہ سہیلیاں     ہیں، نہ وہ رونقیں اور نہ ہی وہ درخت جن پر یہ پھل لگا کرتے تھے۔ ان کی باتوں سے ایک گہری کسک اور محرومی جھلکتی ہے۔

اسی طرح ستر سالہ بی بی جان بھی اس تغیر کو محسوس کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب پھلوں کا موسم آتا تھا، تو خواتین لکڑیاں اور گھاس اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ ان پھلوں کو بھی جمع کرتیں۔ وہ پھل گھروں کی زینت بنتے اور بچوں کی خوشیوں کا ذریعہ ہوتے۔ آج وہ تمام مناظر محض پرانی یادوں کا حصہ بن چکے ہیں۔

سابقہ نیم قبائلی علاقہ حسن خیل قبائلی جو پشاور سے دو گھنٹے کی دوری پر واقع خوبصورت قبائلی علاقہ ہے جسکی ابادی ستر ہزار کے لگ بگ ہیں۔ اس علاقے میں افریدی قبیلہ اباد ہے جو منفرد تاریخی ثقافت رکھتا ہے۔ حسن خیل کا زیادہ علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جو جنگلات سے گرا ہوا ہے۔

معاشی پہلو بھی جنگلات میں اس تبدیلی سے محفوظ نہیں رہا۔ پینتس سالہ عائشہ، جو گرگرے کے موسم میں ان پھلوں کو جمع کرکے انہیں خشک کرکے بیچتی تھیں، آج کل اس کام سے مطمئن نہیں۔ ان کے مطابق، اب ان پھلوں کی مقدار اس قدر کم ہو چکی ہے کہ انہیں دور دراز پہاڑوں میں جانا پڑتا ہےاور پھر بھی مکمل مقدار نہیں ملتی۔ اس کا اثر ان کے روزگار اور گاؤں کی معیشت پر پڑا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ گرگرے کا پھل کبھی گاؤں کی شناخت ہوتا تھا اور تحفے کے طور پر شہروں میں بھیجا جاتا تھا، لیکن اب وہ روایت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ میدانی علاقوں میں بھی درختوں کا زوال جاری ہے۔ خاص طور پر بیری کے درخت جو مقامی ماحول کا ایک حصہ تھے، اب سوکھنے لگے ہیں۔ ان کے پتوں میں نمی کم ہو گئی ہے اور پھل کمزور اور بےذائقہ ہو چکے ہیں۔ اب ان کھیتوں میں بیری کے درختوں کی جگہ کیکر کے درختوں نے لے لی ہے، جو کہ ایک مقامی ماحولیاتی عدم توازن کو جنم دے رہے ہیں۔

اس صورتحال کی سائنسی توجیہہ کے لیے ماہر نباتات اسد اللہ افریدی سے بات کی گئی۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ حسن خیل میں قدرتی پھلوں کے ناپید ہونے کی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی بارشوں میں کمی، بےتحاشہ مائننگ، زہریلی گیسوں کا اخراج اور کیکر کے درختوں کا تیز پھیلاؤ شامل ہیں۔

اسد اللہ کے مطابق، بارشوں کے بدلتے پیٹرن نے پہاڑوں کی نباتاتی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جب بروقت اور مکمل بارشیں نہیں ہوتیں تو پہاڑی درختوں کی جڑوں کو پانی اور معدنیات نہیں ملتے، جس سے ان کی نشوونما رک جاتی ہے اور وہ پھل دینا بند کر دیتے ہیں۔

حسن خیل جہاں قدرتی حسن رکھتا ہے وہاں معدنی زخائر سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں کوئلہ ، سیمنٹ میں استعمال ہونے والی مٹی ، اور کرش پلانٹس کی مائننگ کی جارہی ہے۔

اسد اللہ کے مطابق مائننگ کے دوران جو زہریلی گیسیں اور گرد و غبار خارج ہوتی ہیں، وہ درختوں کی بیرونی سطح کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس سے نہ صرف درخت بیمار پڑتے ہیں بلکہ ان کی افزائش نسل بھی رک جاتی ہے۔ خاص طور پر وہ پودے اور درخت جو نازک اور موسمی ہوتے ہیں، ان پر اس آلودگی کا اثر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ پڑتا ہے۔

کیکر کے درخت بھی اس ماحولیاتی تنوع کی ایک بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔ یہ درخت زمین سے پانی چوسنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو کیکر کی جڑیں دیگر پودوں سے پہلے اور زیادہ مقدار میں پانی جذب کر لیتی ہیں۔ نتیجتاً دیگر درختوں کو پانی نہیں ملتا اور وہ سوکھنے لگتے ہیں۔ مزید برآں، کیکر کے پتوں سے خارج ہونے والا کیمیکل “اللیلوپیتھی” زمین میں موجود دیگر پودوں کی افزائش کو روکتا ہے۔ یہ کیمیکل زمین کو اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ قریبی درختوں کی نشوونما بند ہو جاتی ہے۔
اسد اللہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر کیکر کے درختوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں حسن خیل کی قدرتی خوبصورتی مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔

اسد اللہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے صرف حکومت نہیں بلکہ مقامی لوگ بھی مل کر روک سکتے ہیں۔ ان کے بقول، کیکر کے درختوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عوامی مہمات، آگاہی پروگرامز اور حکومتی تعاون ضروری ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اس اثر سے نمٹنے کے لیے ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ پانی کی بچت، جنگلات کی حفاظت، مقامی درختوں کی افزائش اور مائننگ پر سخت نگرانی جیسے اقدامات کو فوری طور پر نافذ کیا جانا چاہیے۔

یہ مسئلہ صرف حسن خیل تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ ایک عالمی نوعیت کا معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں قدرتی تنوع تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور اس کے اثرات نہ صرف ماحولیاتی نظام پر بلکہ انسانی زندگی، ثقافت، خوراک اور معیشت پر بھی پڑ رہے ہیں۔ بزرگوں کی باتیں، مقامی یادیں اور ماہرین کی تحقیق ایک مشترکہ پیغام دیتی ہیں کہ قدرت کی حفاظت صرف ایک اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ انسان کی بقاء کا سوال ہے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس خاموش تباہی کو دیکھتے رہیں گے یا اس کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھائیں گے؟ اگر ہم نے آج بھی خاموشی اختیار کی تو وہ دن دور نہیں جب حسن خیل کی مٹھاس اور اس کا قدرتی حسن صرف قصے کہانیوں اور بزرگوں کی آنکھوں کی نمی میں باقی رہ جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں