پختون روایات یا عورت کا استحصال؟ صدیوں پر محیط رسموں کی کربناک داستان

تحریر:شمائلہ آفریدی

غلطی میرے بھائیوں کی تھی، سزا مجھے ملی،میں صرف 13 سال کی تھی جب دشمن قبیلے کو سوارہ کر دی گئی۔رقیہ کی لرزتی آواز آج بھی ان زخموں کی گواہی دے رہی ہے جنہیں وقت بھی مندمل نہ کر سکا۔

سورہ کی بھینٹ چڑھنے والی ایک پچاس سالہ خاتون مسماة رقیہ نے بتایا کہ خاندان کے مردوں کی غلطی کے بدلے سوارہ کا شکار ہوئی اور اج تک انہیں پورے گاوں میں طعنے دئیے جاتے ہیں ۔ ان کے مطابق سوارہ خاتون کو جانوروں سے بھی بدتر سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اور انہیں  زندگی بھر تمام حقوق سے محروم کردیا جاتا ہںے ۔ اکثر و بیشتر کم عمر لڑکیوں کو ادھیڑ عمر شخص کو بطور سوارہ دے دیا جاتا تھا۔

پاکستان کے بعض قبائلی علاقوں میں آج بھی ایسی رسوم زندہ ہیں جنہوں نے عورت کو صدیوں تک پاؤں کی جوتی سمجھا۔
تعلیم و شعور کے باوجود، بعض رسمیں جیسے سوارہ، غگ، تورہ، میراثی قتل، وٹہ سٹہ، جلاوطنی، اور تربور ولی جیسے ظلم و ستم کے نظام اب بھی سانسیں لے رہے ہیں۔

ایک غلطی، ایک عمر کی سزاسوارہ، جس میں کسی مرد کے جرم کے بدلے ایک لڑکی کو مخالف قبیلے کے حوالے کیا جاتا ہے، رقیہ جیسے سینکڑوں چہروں کو برباد کر چکا ہے۔ اس “معاہدے” میں لڑکی کی رضامندی تو دور، اس کی عمر، صحت، اور مستقبل سب نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔

رقیہ نے بتایا کہ نہ صرف اسے اجنبی مرد کے حوالے کیا گیا بلکہ پورا گاؤں آج بھی طعنے دیتا ہے جیسے وہ مجرم ہو۔

ایک اور انتہائی عورتوں کے استحصال پر مبنی رسم یا بدعت  غگ کی رسم تھی ۔ لڑکی کے کسی بھی قریبی رشتے دار کو اگر لڑکی کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا جاتا تو وہ پورے گاٶں میں اعلان یا غگ کرتا کہ اس کی فلانے رشتے دار کی بیٹی سے کوئی شادی نہیں کرے گا ۔ اور یوں وہ لڑکی ساری عمر باپ کی دھلیز پر بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ۔

رخسانہ کی کہانی مزید کربناک ہے۔ صرف اس لیے کہ اس کے چچا زاد کو اس کا رشتہ نہ دیا گیا، اس پر “غگ” ڈال دیا گیا یعنی کوئی اور اس سے شادی نہیں کر سکتا۔ اس اعلان نے رخسانہ کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا۔ آخرکار وہ کسی دوسرے گاؤں کے شادی شدہ مرد کے ساتھ بیاہی گئی اور اپنا گھر، گاؤں، سب کچھ چھوڑنا پڑا۔بقول اس کے اس ایک منفی رسم نے اس کی پوری زندگی تباہ کردی ۔

وٹہ سٹہ (بدل کی شادی) بظاہر مساوات پر مبنی معاہدہ لگتا ہے مگر جب ایک رشتہ ٹوٹتا ہےتو دوسرا گھر بھی اجڑ جاتا ہے۔ یہ رشتہ محبت کا نہیںمجبوری کا ہوتا ہے جس میں عورت ایک بار پھر “سمجھوتے” کا نام بن جاتی ہے۔

خون کے سودےقبائلی رواجوں میں اگر کسی فرد سے دشمنی ہو جائے تو بدلے میں اس کے خاندان کی خواتین کو قتل کرنا، جلا وطن کرنا، یا پورے قبیلے کو سزا دینا عام تھا۔ “تربور ولی” جیسے رسموں میں افراد کے ذاتی جرائم کی قیمت پورا خاندان چکاتا ہے۔ ایک مقامی مشر نے بتایا کہ کس طرح اس کا پورا قبیلہ سالوں تک بدلے کی جنگ میں جھونک دیا گیا، صرف ایک فرد کی غلطی کی بنیاد پر۔

ناغہ یعنی جرمانہ بھی ایک مثبت عمل کے طور پر شروع ہںوا ۔ یعنی کسی شخص کے جرم کے عوض اس کو ناغہ یا جرمانہ کیا جاتا تھا ۔ تاکہ دوسروں کے لیۓ عبرت ہو ۔اور وہ کوئی بھی آیدندہ جرم کرنے سے باز رہے ۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمل بھی منفی صورت اختیار کرتا گیا ۔ اور جرگہ بغیر کسی جائز جواز اور سبب کے لوگوں کو جرمانے اور ناغہ سنانے لگا ۔ معمولی باتوں پر طاقتور فریق جرگہ کی مدد سے کمزور فریق کو ناکردہ گناہ کے سزا کے طور پر ناغہ یا جرمانہ سنا دیتا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جرگہ نظام پر لوگوں کا اعتماد ختم ہںو گیا ۔ اور مخالفین اسے ناغہ کو بطور ہتھیار ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے لگے ۔

ایک دوسری قبیح رسم تورہ یا کاروکاری کی رسم ہے یہ رسم اگر چہ خود اپنے وجود پر کٸ سوال رکھتی ہے لیکن اس کا استعمال بھی شدید منفی طریقے سے ہوا ۔۔ اکثر اگر کبھی کسی مرد کے ساتھ یا مخالف قبیلے کے کسی فرد کے ساتھ کوئی تنازعہ پیش اتا یا اس کے ساتھ کوئی ذاتی رنجش پیدا ہو جاتا تو اپنے خاندان کی کسی عورت کو قتل کرکے اس کے بدلے اس مخالف فرد کو کاری کرکے قتل کردیا جاتا ۔  اکثر ایسے واقعات میں بے گناہ مرد عورت کو بھی قتل کردیا جاتا تھا ۔

جلاوطنی کی ایک منفی رسم بھی پرانے وقتوں میں موجود رہی ہے جو کہ اب کافی حد تک ختم ہںوچکی ہے ۔ جب کوئی مرد کسی خاتون کے لیۓ اظہار پسندیدگی کرتا تو اس کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ اور ایسے شخص کو قبیلے یا گاٶں سے جلاوطن کردیا جاتا تھا ۔ اسی طرح کبھی کبھار کسی ایک شخص کی غلطی اور گناہ کی وجہ سے پوری برادری اور خاندان کو علاقہ بدر کردیا جاتا ہںے ۔ اور اس کی جایداد کو مخالفیں اپس میں تقسیم کر لیتے ۔

اب یہ رسم انصاف کے بجائے کمزوروں کو دبانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ کیا واقعی یہ خرافات پشتون روایت کا حصہ ہیں؟ یا وقت کے ساتھ فرد واحد کے مفادات نے انہیں رواج کا لبادہ پہنا دیا؟

بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ رسومات دراصل قبائلی تعصب، جاہلیت، اور تعلیم کی کمی کا نتیجہ ہیں، نہ کہ اصلی روایتی اقدار۔پشتون روایات میں عزت، غیرت اور مہمان نوازی نمایاں اقدار رہی ہیں، لیکن ان رسوم نے ان قدروں کو داغدار کیا ہے۔

بزرگوں کے بقول یہ جتنے بھی خرافات  ہیں یہ پختون ولی کا حصہ نہیں ہیں۔ بلکہ اختلاط و ارتقا کے نتیجے میں ہمارے شعور و اگاہی کی کمی کے باعث ہمارے ثقافتی و سماجی ڈھانچے کا حصہ بنے ۔۔۔

آج صورتحال مکمل تاریک نہیں۔ شعور کی بیداری، لڑکیوں کی تعلیم، اور میڈیا کی مداخلت سے ان فرسودہ رسوم کی جڑیں کمزور ہونے لگی ہیں۔ خواتین اب اپنی آواز بلند کر رہی ہیں، اور کئی علاقوں میں سوارہ اور غگ جیسے مظالم پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔

قبائلی خواتین کی خواندگی میں نمایاں اضافہ اور نئی نسل کی باشعور سوچ اس بات کی امید دلاتی ہے کہ یہ خرافات ختم ہو سکتی ہیں، بس شرط یہ ہے کہ ہم انکار کرنا سیکھیں، ظلم سے، جاہلیت سے، اور اس نظام سے جو عورت کو ہمیشہ قربانی کا بکرا بناتا رہا۔

اگر پختون خطے میں پائیدار امن قائم ہو جائے اور تعلیم کا چراغ ہر گھر تک پہنچےتو یہ ممکن ہے کہ آنے والی نسلیں ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھیں جہاں عورت صرف قربانی نہیں بلکہ ترقی کی علامت ہو۔

آج ہمیں ان فرسودہ رسموں کے خلاف صرف آواز نہیں مزاحمت بھی کرنی ہوگی۔ کیونکہ عورت کی عزت صرف ایک فرد کی نہیں پوری قوم کی عزت ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں