انور محسود
خدا راہ ہمارے بچوں کو لینڈ ما ٗینز، خوفناک بلا سے بچائے جو وزیرستان میں کسی فصل کی طرح کاشت ہوئی ہے ۔یہ کیسا انصاف ہے کہ پنجاب میں تیل چوری کرتے ہوئے جل کر مرنے والوں کو تیس لاکھ سے زائد کامعاوضہ تو ملتاہے لیکن ہماری سر زمین پر بچھائے ہوئے لینڈ مائینز دھماکہ سے مرنے والوں کو کسی شمار میں بھی نہیں گردانتے ۔ یہ چند جملے اس خطاب کا حصہ ہے جو گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں سینیٹر دوست محمد نے سینیٹ کے فلور پر دکھ اور جذبات سے بھرے خطاب میں کہے تھے ۔
سینیٹر کی اس خطاب کے پیچھے کیا محرکات تھے اس پر تو بعد میں آؤں گا لیکن پہلے ملاخطہ کرے ایک دھماکہ کے کہانی کی جس میں دوبھائی اپنے دو لخت جگر کھو دیتے ہیں ۔ اپر سینہ تیژہ گاءوں میں لینڈ مائینز کے خونخوار دھماکہ نے دو بچوں کے ساتھ ایک بھیڑ کی جان لی تھی ۔ ان بچوں کی خاندان پر کیا گزری تو آئے آنکھوں دیکھا حال خود دیکھ کر سنیئے ۔
وہ بڑی بڑی آنکھوں میں خوبصورتی کے ساتھ ڈر، خوف اور حیرانگی لیے ہوئے اپنے ارد گرد ماحول سے بے پرواہ ، بغیر پلکیں چھپکا ئے سامنے دیکھ رہی تھی ۔ ان کے گرد کھڑے لوگ غمزدہ ہونے کے ساتھ انکی خوبصورتی اور معصومیت سے محصور بھی ہورہے تھے ۔ یہ 8 سال کی ننھی سی پری چار پائی پر خون سے لت پت اپنے سے دو سال بڑے بھائی کی لاش گھور کر ہچکی لیتی کھڑی تھی ۔ چارپائی سے زرا ہٹ کر بھیڑ کا چھوٹا سا بچہ ، بچی سے زیادہ خوف زدہ نظر آرہا تھا ۔ بچی کی ماں ٹینٹ کے اندھر بے ہوش پڑی تھی اور باپ گھر کا سودالینے کے لیے باہر گیا تھا ۔ تین میٹر دور آویزاں دوسرے خیمے کے سامنے پری کے بھائی کے ہم عمر کزن کی زخموں سے چور لاش بغیر بسترے بچھائے چارپائی پر پڑی تھی اور ٹینٹ میں اسکی ماں کی یا اللہ یا اللہ کی صدائیں دل پھاڑ نے سے کم نہیں تھے ۔ دائیں طرف اویزاں تیسرے خیمے میں ایک ضعیف جوڑا بھی مقیم تھا جو شاید انکے رشتہ دار تھے ۔ بزرگوار بہت زیادہ غمگین ہونے کے ساتھ حیران و پریشان گاءوں کے لوگوں کے بیچ کھڑا تھا ۔ بزرگوار کی بیوی بچی کی ماں کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہی تھی ۔ چارپائی پر پڑی دونوں لاشیں گہرے زخموں کے ساتھ اپنے پیروں سے محروم ہو چکے تھے ۔ ہماری سر زمین پر بچھائی ہوی بارودی مواد سے ننھی سی پری کے کزن اور واحد بھائی کے ساتھ انکی لاڈلی بھیڑ کی زند گیا ں گل ہو چکے تھے ۔ روتے روتے بچی کا گلا بیٹھ چکا تھا ،آنکھوں کی نمی ختم ہو چکی تھی ۔ ہچکیاں لیتے لیتے انکے گردکھڑے لوگوں کے آنکھوں سے ٹپکتے آنسو صاف نظر آرہے تھے ۔ ہاں ،کبھی کبھی انکی لبریز آنکھوں میں موجود سفید موتیوں جیسے آنسوں کے قطرے انکے معصوم چہرے پر چھلکتے نظر آتے جب انکی خوبصورت آنکھوں کے محافظ لمبی پلکیاں ایک دوسرے سے چھپکاتے یا کہی انکی توجہ اپنے بھائی کی لاش سے ہٹ کر لاڈلی بھیڑ کے لاڈلے بچی کی طرف ہوتی ۔
شاہ بلوط کے گھنے جنگل کے دامن میں مقیم یہ تینو ں خاندان چھوٹے بڑے پانچ خیمے اویزاں کر چکے تھے ۔ جس میں تین خیموں میں خود رہائش پذیر تھے اور باقی دو بڑے خیمے انکے چھوٹے بڑے جانوروں کے کام آتے تھے ۔ وزیر قبیلے سے تعلق رکھنے والے ان تینوں خاندان کا پیشہ جانور پالنے کا تھا ۔ یہاں وافر مقدار میں چارا موجود ہونے کی وجہ سے یہ خاندان تحصیل برمل سے ہجرت کرکے محسود بیلٹ کے اس گاءوں میں وقتی طور پر رہائش پذیر تھے ۔ بھیڑ ،گائیں اوراونٹوں کی بڑے ریوڑ کے مالک یہ اندان دل کے سخی بھی تھے ۔ مہمانوں کو دہی ،خالص گھی اور مکھن کھلانے کے ساتھ کڑک چائے پلائے بغیر جانے بھی نہیں دیتے ۔ لیکن آج انکی مہمانوازی ان سے کہیں دور اداس اور خاموش کھڑی تھی ۔ معصوم پری کے والد محترم کا انتظار تھا تاکہ وہ جوں ہی پہنچے یہ تینوں خاندان یہاں سے کوچ کرکے اپنے آبائی گاءوں منتقل ہوجائے ۔ گاءوں کے لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے خوفزدہ تو تھے ہی لیکن ان دونوں میتوں کو اس وقت جنوبی وزیرستان میں قائم کئی درجنوں چیک پوسٹوں سے پار کرنے کے لیے پریشان بھی تھے ۔ خدا خوش رکھے گاءوں کے مقامی سرکاری استاد سید اختر صاحب کو جس نے بچی کی والد محترم کے پہنچنے کے بعد مقامی چیک پوسٹ پرتعینات سیکیورٹی اہلکاروں سے نہ صرف ان غمزدہ خاندانوں کی اپنے گاءوں تک رسائی کے لیے راہ داری یعنی اجازت نامہ وصول کیا تھا بلکہ بذات خود دونوں میتوں کے ساتھ دفنانے کی جگہ(شین غنڈائی)تک ساتھ دیاتھا ۔ یاد رہے کہ اس وقت چیک پوسٹ سے لاش گزارناجوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا ۔
اس واقع کا ذکر نہ تو اس وقت کے پولیٹیکل انتظامیہ کے ڈی ایس آر میں ملے گا اور نہ ہی موجودہ ضلعی انتظامیہ کے ایف ائی آر میں ۔ اس بدنصیب خطہ کے بدقسمت لوگوں کی اس قسم کے کئی واقعات ہونگے جس کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں ملے گا ۔ خیر چلتے ہیں اپنے کہانی کی طرف ،یہ حادثہ 2017ء میں سینیٹر دوست محمد کے گھر سے پانچ کلومیٹر آگے وادی بدر کے ایک چھوٹے سے گاءوں اپر سینہ تیژہ میں پیش آیا تھا اس سال بلکل اسی قسم کا ایک اور واقعہ خودسینیٹر دوست محمد کے اپنے گاءوں چلویشتی میں وقوع پذیر ہواتھا جس میں دو بچے تو موقع پر چل بسے تھے جبکہ ایک بچی زخمی ہوئی تھی ۔ چلویشتائی گاءوں میں بدر الگڈ کے بہتے پانی کے کنارے چھپے لینڈ مائینز کے پھٹنے سے موقع پر دوسگے بھائی اپنی جانیں دھو بیٹھے تھے اور انکے ساتھ کھیلتی چھوٹی بہن شدید زخمی ہوئی تھی ۔ یہ تینو ں بچے ایک گڈریا کی کل اثاثہ کے ساتھ مستقبل بھی تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ سینیٹر دوست محمد نے سینیٹ کے فلور پر اپنے جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی حکومت کو بھی نہیں بخشا ۔
شکر ہے صوبائی حکومت کی کہ آخری سال میں خواب غفلت سے تو جاگ اٹھی شاید انکے آنکھیں کھولنے کا سبب سینیٹر دوست محمد کی بار بار دستک ہو ،بہرحال جوبھی ہو لیکن ہماری ضلعی انتظامیہ میں آج کل بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے جو اس قسم کی حادثات کا ڈیٹا اکھٹاکر رہی ہیں ۔ پی ڈی ایم اے جنوبی وزیرستان کے ریکارڈ میں 44 کیسز پر کام شروع ہے ۔ یہ وہ کیسز ہیں جو 2019کے بعد پیش آئے ہیں ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اس قسم کے حادثے میں مرنے والوں کو پانچ لاکھ جبکہ زخمی ہونے والے کو دو لاکھ روپے ملنے کی نوید بھی سنائی ہے ۔ 2019 ء سے پہلے 64 کیسز سیون اے ٹی اے نہ ہونے کی وجہ سے سرکار کے قبولیت کی دائرے سے باہر ہیں ۔ 2019ء سے پہلے نہ تو یہاں کوئی تھانہ تھا اور نہ ہی کوئی پولیس کے اہلکار، اب غم کے مارے یہ لوگ جائیں تو کہاں جائیں ۔ دفعہ سیون اے ٹی اے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ قبائلی کہیں خود اس جہاں فانی سے فانی نہ ہوجائیں ۔ سرکارکے پاس ضم سے پہلے اور ضم کے بعد کل ملاکے ایک سو اٹھ لینڈ مائینز پھٹنے کا ریکارڈ موجود ہیں ۔ ایک اور ریکارڈ بھی ہے جو مقامی سوشل ایکٹویسٹ کے مرتب کردہ ہے جس میں لینڈ مائینز پھٹنے کے223 کیسز کی مفصل تفصیل ہے ۔ آخر میں غمزدہ خاندانوں کی دل جوئی کی خاطر ،دل بڑا کرکے اگر ہمارے صوبائی سرکار چاہے تو پی ٹی ایم کے سرگرم رکن عالمزیب کے مرتب کردہ رپورٹ سے فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔
نوٹ : یہ تحریر روزنامہ گلوبل پوسٹ پر 23نومبر 2022 پر شائع کیا گیا تھا.